عادل احمد ڈار نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے تین برس تک انتظار کیا۔ یہ 2016ء کا واقعہ ہے، بھارتی فوجیوں نے عادل احمد ڈار اور اس کے دوستوں کو اسکول سے واپسی پر راستے میں روک کر مارا پیٹا، مرغا بنایا اور ناک رگڑنے پر مجبور کیا۔ تب اٹھارہ سالہ عادل خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا تھا، لیکن گزشتہ سال جب بھارتی فوج نے کاکہ پورہ قصبے کے جنوب میں واقع گنڈی باغ میں ان کے مکان کو گرا دیا اور ان کے گھر کی خواتین کی بے حرمتی کی، تو عادل احمد ڈار کا غصہ بے قابو ہو گیا، وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ والدین اسے تلاش کر کے تھک گئے۔ کسی نے بتایا کہ وہ مجاہدین کے پاس چلا گیا ہے، تو والدین نے اسے ایک ویڈیو پیغام بھیجا کہ واپس آکر شکل تو دکھا جائو، مگر نہ وہ خود آیا، نہ ہی ماں باپ کے پیغام کا جواب دیا۔
ایک سال بعد وہ آیا، تو بھارتی فوج کے لیے موت کا پیغام بن کر آیا۔ اس نے چودہ فروری کو بھارتی فوج کے جموں سے سری نگر جانے والے ستر بسوں کے قافلے پر فدائی حملہ کیا۔ ایسا خوف ناک حملہ جس کی مثال کشمیر کی جد وجہد آزادی کی پُوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس حملے کے نتیجے میں بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق چوالیس جوان اور افسر مارے گئے، جب کہ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ تھی۔ اس لیے کہ عادل نے بارود بھری گاڑی کو دو بسوں کے درمیان گھس کر اُڑایا تھا۔ بارود کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ دونوں بسوں کے پرخچے اڑ گئے۔
مقبوضہ کشمیر کے جنوب میں واقع پلوامہ کی مرکزی شاہراہ پر بارود بھری گاڑی فوجی بسوںسے ٹکرانے اور ایک سو سے زیادہ فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کرنے والا عادل احمد ڈار2018ء کے شروع تک ایک سادہ دل عام سا نوجوان تھا۔ ان کے والد غلام حسن ڈار جنہوںنے بھارتی وزیر اعظم کو اپنے بیٹے کا قاتل قرار دیا ہے، کہتے ہیں: میرے بیٹے کو بھارتی فوج نے نفرت دلا دلا کر بم بار بنا ڈالا۔ عادل کے والد غلام حسن پلوامہ میں گھر گھر پھیری لگا کر کپڑا بیچتے ہیں۔ ان کا بڑا بھائی لکڑی کا کاروبار کرتا ہے اور چھوٹا بھائی عارف اسکول میں زیر تعلیم ہے۔
غلام حسن کہتے ہیں: بھارت کی ظالم فوج نے عادل کے ساتھ ایسا شرم ناک سلوک نہ کیا ہوتا، تو وہ کبھی اتنا انتہائی اقدام نہ اٹھاتا۔ عادل احمد ڈار کے والد نے کہا: بھارتی فوج کے تشدد اور غیر انسانی رویے نے میرے بیٹے کو شدت پسند بنایا، بھارتی فوجیوں نے میرے بیٹے اور اس کے دوستوں کو روکا، انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ آئے دن ان پر پتھر پھینکنے کے جھوٹے الزامات لگاتے اور انہیںہراساں کرتے تھے، جس کے باعث عادل نے اسلحہ اٹھانے کی ٹھان لی۔
عادل کی والدہ فہمیدہ نے کہا: فوجیوں کے تشدد اور گھر والوں کی توہین کے باعث میرا بیٹا ان سے شدید نفرت کرنے لگ گیا تھا۔ ہمیں بیٹے کے منصوبے کا علم نہیں تھا، اس لیے کہ وہ گزشتہ مارچ کی 19 تاریخ سے غائب ہے۔ ہم نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن ہماری تلاش بے سود ثابت ہوئی۔ غلام حسن ڈار نے اپنے بیٹے کے حملے کا ذمہ دار مودی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ فوج سے نہیں، بات چیت سے حل ہو گا۔ مودی جو کچھ کر رہا ہے، اس سے کشمیری نوجوان مزید شدت پسند بنیں گے۔
ایک بھارتی پروفیسر اشوک سوائن نے بھی پلوامہ کے واقعے کا ذمہ دار نریندر مودی کو قرار دیا ہے۔ بھارتی نژاد اشوک سوائین سوئیڈن میں پروگرام آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں بھارتی پروفیسر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو موت کا سوداگر قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی صرف لاشوں پر سیاست کرنا جانتے ہیں۔ اپنے پیغام میں بھارتی پروفیسر نے مزید کہا کہ مودی انتخابات جیتنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے 2002ء میں گودھرا ٹرین آتشزدگی کے واقعے میں 59 لاشوں کو استعمال کیا تھا، اب پلوامہ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ بھی وہی کر رہے ہیں۔ اشوک سوائن نے کہا کہ عادل احمد ڈار نے پلوامہ میں ایسا خوف ناک حملہ کیوں کیا، اس لیے کہ اس کو اسکول سے واپسی پر بھارتی فورسزنے زمین پر ناک رگڑوائی تھی؟ مودی چاہتے ہیں کہ اہل کشمیر کی دشمنی میں اضافہ ہو، تاکہ وہ اس نفرت کے بل پر الیکشن جیت سکیں۔ پلوامہ حملے سے مودی کو کوئی نقصان نہیں ہوا، بلکہ فائدہ ہو گا۔ اس لیے کہ حال ہی میں بی جے پی کو ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پلوامہ حملہ بھارت کے لیے پارلیمانی الیکشن جیتنے کی حکمت عملی بن گیا ہے۔
بھارتی حکومت اور میڈیا نے حسب روایت پلوامہ حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی پوری کوشش کی، بھارتی میڈیا نے بھی جھوٹا اور زہریلا پروپیگنڈا کیا، لیکن خود بھارتی میڈیا کو جلد ہی اصل حقائق تسلیم کرنے پڑے، جب یہ حقیقت سامنے آگئی کہ فدائی حملہ انجام دینے والے عادل احمد ڈار عرف وقاص کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ پلوامہ کے ایک قصبے کاکہ پورہ کے جنوب میں واقع بستی گنڈی باغ کا رہنے والا ہے۔ عادل احمد ڈار نے اس حملے سے پہلے جو ویڈیو ریکارڈ کرائی، اس میں نہ صرف اس فدائی حملے کے بارے میں اپنے پروگرام کی وضاحت کی، بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ اپنی جان قربان کر کے بھارت کو سبق سکھا رہے ہیں، ان ہی کی طرح ہزاروں اور بھی ہیں، جو یہ کام کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو جو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی ہے، اس میں عادل احمد ڈار علانیہ بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’اے ہندوستان کے مشرکو! غور سے سنو اور خوب جان لو! ہم تمہارے ساتھ ایسے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے والے ہیں، جس کا سامنا کرنا تم جیسے بزدلوں کے بس کی بات نہیں۔ ہم ماضی میں بھی تمہیں ایسے گہرے زخم دے چکے ہیں، جن کا بھرنا ناممکن ہے۔ IC-184 طیارے کے اغوا سے لے کر تمہاری پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے مشرکوں کے بھیجے اُڑانے تک، بادامی باغ کے فدائی حملوں سے لے کر جموں کے نگروٹا کیمپ کو آگ لگانے تک، پٹھان کوٹ ایئر پورٹ حملے سے لے کر سری نگر ایئر پورٹ پر واقع سی آر پی ایف کیمپ کی تباہی تک اور ہمارے جانباز اسنائپر کی گولیوں سے تمہارے بزدل افسروں اور جوانوں کی چھلنی لاشوں تک، ہزاروں آئی ڈی بلاسٹس سے تمہاری چیک پوسٹوں کی تباہی تک… بہت سے ایسے ڈرائونے خواب ہیں جو تمہاری نیندیں حرام کرتے رہیں گے…‘‘
اسی ویڈیو میں عادل ڈار نے آگے چل کر بھارتی فوج کے کمانڈروں اور بھارتی حکمرانوں کو یوں مخاطب کیا ہے:
’’ہم تمہاری منت نہیں کرتے کہ ظلم بند کرو اور نہ ہی تم سے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے ہاتھ جوڑتے ہیں، بلکہ تمہارے اس ظلم سے ہمارے جہاد کو اور قوت مل رہی ہے۔ ہاتھ جوڑنے کے بجائے ہم جہاد کے ذریعے تمہارے ان ہاتھوں کو توڑ پھینکیں گے، جن سے تم اسلام کی مقدس عمارت کو گرانے کے ناپاک خواب دیکھے بیٹھے ہو۔‘‘
مقبوضہ کشمیر میں فدا کاری کی نئی تاریخ رقم کرنے والے عادل احمد ڈار نے اپنی ویڈیو کے آخر میں بھارتی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہم مجاہدین پر یہ قرض تھا کہ ہم اپنا فرض ادا کرتے ہوئے تمہاری عارضی خوشیوں اور خوش فہمیوں کو مٹی میں ملا کر تمہارے گھروں اور تمہارے شرکیہ ایوانوں میں ماتم برپا کر دیں۔ ابھی صرف میں نے اپنے حصے کا فرض اور قرض ادا کیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے امت کا سر فخر سے بلند کیا ہے، مجھ جیسے ہزاروں باقی ہیں، جو تمہاری تباہی کا سامان کیے اپنی منزلوں کو پانے کے منتظر اور بے تاب بیٹھے ہیں۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭
Next Post