قومی احتساب بیورو المعروف نیب (NAB) کی کارکردگی، ضرورت اور افادیت پر ایک مدت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اس ادارے کو ختم کرنے کی باتیں بھی اکثر ہوتی ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ماضی میں نیب کو مخالفین پر قابو پانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ میاں نواز شریف کے سابق دور وزارت عظمیٰ میں نیب کے چیئرمین سیف الرحمان کے حکومت مخالف سیاستدانوں کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر سیاست سے باہر کرنے کے معاملات باخبر حلقوں کے علم میں ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں نے اعلیٰ عدالتوں سے برأت حاصل کر کے اپنی سیاست کو پہلے سے زیادہ چمکایا ہے۔ آصف علی زرداری گیارہ سال تک جیل میں رہنے کا کریڈٹ لیتے ہیں، جس کے دو پہلو بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں جیل میں اور عدالت کے بہانے اپنے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کے ضیاء الدین اسپتال میں منتقلی کے دوران عیش وعشرت کے تمام سامان فراہم کیے جاتے رہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آصف علی زرداری دوران حراست خود کو زیادہ مضبوط، مطمئن اور خوش و خرم محسوس کرتے تھے۔ اسی تجربے کی بنا پر وہ آج بھی جیل کو اپنا دوسرا گھر قرار دے کر گرفتاری سے خوفزدہ نہ ہونے کی باتیں کرتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہیں ایک دن کے لیے بھی عام قیدی کی طرح اڈیالہ یا مچھ جیل میں رہنا پڑتا تو وہ جیل جانے میں فخر تو کیا محسوس کرتے، کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتے ہوئے نظر آتے۔ اپنے وطن میں نیب کا ادارہ ہو یا ایف آئی اے اور سی آئی اے جیسے ادارے، ان کے چنگل میں عام آدمی معمولی الزام میں بھی پھنس جائے تو اس کی بقیہ زندگی عذاب ہو جاتی ہے، لیکن آصف زرادری ہی نہیں، شریف برادران جیسے لوگ بڑے بڑے مقدمات میں بھی ماخوذ ہوں تو انہیں جیل اور اسپتال میں زندگی کی ہر سہولت درکار ہوتی ہے، جسے فراہم کرنے کے لیے اعلیٰ عدالتیں بھی احکام جاری کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ان دنوں نیب کے خلاف شکایتوں کے جو انبار لگا رکھے ہیں، وہ سب اگر درست ہیں تو ان دونوں جماعتوں نے گزشتہ دس سال کے دوران اپنے دور حکمرانی میں انہیں دور کیوں نہیں کیا؟ عوامی نقطہ نظر سے تو یہ بات کھل کر کہی جاسکتی ہے نیب کی کارروائیوں کے نتیجے میں قومی دولت کے بدترین لٹیروں میں سے کسی ایک کو بھی آج تک عبرت ناک سزا ہوئی نہ لوٹی ہوئی دولت کے واپس آنے سے عام لوگوں کو مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اذیت ناک عذابوں سے نجات مل سکی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ قومی احتساب بیورو کی سیاستدانوں، نوکر شاہی کے کل پرزوں اور دیگر مجرموں کے خلاف کارروائیاں ہر قسم کے تعصب اور جانبداری سے پاک ہوتی ہیں، اسی لیے تو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح تحریک انصاف کے کئی رہنما بھی اس کی زد میں ہیں۔ اس کے ساتھ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ نیب کی جانب سے پیش کیے جانے والے اکثر ریفرنسز اور مقدمات یہاں تک کہ اس کی تحقیقات بھی نااہلی اور غیر ذمہ داری کے باعث آخر میں ٹھس ہوکر رہ جاتی ہیں۔
بدھ کو آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے کیس میں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو اسلام آباد میں گرفتار کرنے کے بعد نیب کی جانب سے کراچی میں ان کے بنگلے پر چھاپا مارا گیا اور کئی گھنٹے تک اہل خانہ سے تفتیش کر کے اہم دستاویزات قبضے میں لے لی گئیں۔ ذرائع کے مطابق سراج درانی کے لیپ ٹاپ سے فارن کرنسی اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی مل گئی ہیں۔ اس کارروائی کو پیپلز پارٹی پورا زور لگانے کے باوجود نہ رکوا سکی تو اس نے احتجاجی دھرنوں اور قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کا سہارا لیا۔ بہر حال آغا سراج درانی کو عدالت نے یکم مارچ تک ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔ پیپلز پارٹی نے حسب روایت سندھ کارڈ استعمال کرتے ہوئے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا اور کہا وزیراعظم عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے خلاف نیب میں تحقیقات کے باوجود انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ پیپلز پارٹی ایک طرف آغا سراج درانی کو عوام کا منتخب کردہ نمائندہ اور سندھ اسمبلی کا کسٹوڈین قرار دے کر ان کی گرفتاری کو عوامی مینڈیٹ کی توہین قرار دیتی ہے تو دوسری جانب اسمبلیوں کے ایسے ہی دوسرے نگرانوں اور محافظوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر آغا سراج درانی کی گرفتاری غلط اقدام ہے تو ایسے ہی دوسرے محافظوں اور نگرانوں کی گرفتاری کے مطالبے کا کیا جواز ہے۔ پاکستان میں یہ عجب رسم چل پڑی ہے کہ نہایت ناقص انتخابی نظام کے تحت منتخب ہوجانے والے افراد کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر اور آزاد سمجھا جاتا ہے اور ان کے خلاف جائز کارروائی کو بھی عوامی مینڈیٹ کی توہین قرار دیا جاتا ہے۔ جزا و سزا کے اسلامی اصولوں کے مطابق جرم کا ارتکاب جتنی بڑی شخصیت کا ہو، وہ اسی کے حساب سے زیادہ سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے آغا سراج درانی کی گرفتاری کو لسانی رنگ دینے پر نیب کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس ادارے کا کسی حکومت، جماعت، گروہ یا فرد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم ہر قسم کی صوبائیت کی مذمت کرتے ہیں۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری مجاز اتھارٹی سے وارنٹ حاصل کرنے کے بعد قانونی طور پر کی گئی ہے۔ قومی احتساب بیورو کی تمام تر وضاحتوں کے باوجود کارروائی جس بھونڈے انداز اور سندھ کے بجائے اسلام آباد میں کی گئی، اس پر سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کے کراچی میں محل نما بنگلے پر کتنی دیر تک قبضہ رکھ کر تفتیش کی گئی، اس کا پیپلز پارٹی کے پاس کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ اس مدت کو تین سے بارہ گھنٹے تک بتایا جا رہا ہے، جو اس واقعے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ باقی رہا کوئی تقدس کو پامال کرنے کا معاملہ تو باخبر حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں کوئی مقدس شے ہو نہ ہو، مست و بے خود اور مدہوش کرنے کے بہت سے لوازمات ضرور پائے گئے ہوں گے۔ سیاسی طور پر یہ بھی کہا گیا کہ بنگلے میں محصور خواتین تک کھانا پہنچانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اول تو اندر موجود جو خواتین کے بارے میں تصور کر لیا جائے کہ وہ کھانا پکانے کے قابل نہ تھیں تو ان کے باورچی اور ملازمین تو اندر ہی ہوں گے۔ ان سے یہ کام لینے میں کیا امر مانع تھا۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری سمیت دوسرے رہنما ہوں، مولانا فضل الرحمن اور ان کے قریبی ساتھی اکرم درانی ہوں یا تحریک انصاف میں جمع ہونے والا بھان پتی کا کنبہ، ایک ایک کر کے سب کی باری آنے والی ہے۔ شیطانی حیلوں بہانوں سے یہاں کوئی بچ گیا تو خالق کائنات کی عدالت انصاف سے نکل کر کیسے اور کہاں بھاگے گا؟
٭٭٭٭٭
Prev Post