سیدنا ابوحازم سے عمدہ نصائح سننے کے بعد خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے ان سے کہا کہ ’’کوئی اپنی ضرورت ہمیں بتائیں۔‘‘
اس پر سیدنا ابوحازمؒ آپ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔
خلیفہ نے دوبارہ کہا: ابوحازم! کچھ تو ارشاد فرمائیں، ہم آپ کے کام آنا چاہتے ہیں اور آپ کی خدمت بجالانا اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔
جب خلیفہ نے بہت زیادہ اصرار کیا تو ارشاد فرمایا: ’’میری ضرورت یہ ہے کہ آپ مجھے جہنم سے بچالیں اور جنت میں داخل کر دیں۔‘‘
خلیفہ نے کہا: ’’اے ابو حازم! یہ تو میرے بس میں نہیں۔‘‘
ابو حازم نے کہا: ’’امیر المؤمنین! اس کے علاوہ میری کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
خلیفہ نے کہا: ’’ابو حازم میرے لئے دعا فرمائیں۔‘‘
ابو حازم نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور کہا: ’’خدایا! تیرا بندہ سلیمان اگر تیرے دوستوں میں سے ہے، تو اسے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما، اگر یہ تیرے دشمنوں میں سے ہے تو اس کی اصلاح فرما، اسے ہدایت دے کر اس راستے پر چلا، جس کو تو پسند کرتا ہے اور تو اس سے خوش ہوتا ہے۔‘‘
حاضرین میں سے ایک نے کہا: ’’جب سے امیر المؤمنین کے پاس تم بیٹھے باتیں کر رہے ہو، یہ بات تم نے سب سے بری کہی ہے، تم نے امیر المؤمنین کو خدا کا دشمن کہہ کر انہیں تکلیف دی ہے۔‘‘
ابو حازم بولے: ’’بلکہ آپ کیسی بری بات اپنی زبان پر لارہے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد و پیمان لیا ہے کہ وہ حق بات کھلم کھلا کہتے رہیں، خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیؐ کو حکم دیا۔
ترجمہ: ’’اس (قرآن کریم) کو بیان کرو گے لوگوں سے اور نہ چھپاؤ گے۔ یاد رکھیں! علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
پھر خلیفہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’اے امیر المؤمنین وہ لوگ جو ہم سے پہلے گزرے ہیں، وہ اس وقت تک صحیح راستے پر بھلائی اور عافیت کے ساتھ تھے، جب تک ان کے حکمران علماء کے پاس علم، عمل اور تقویٰ حاصل کرنے کے لئے دلی شوق و جذبہ کے ساتھ حاضر ہوتے رہے۔‘‘
’’پھر ایسے بے وقوف اور لالچی لوگ آئے، جنہوں نے علم حاصل کیا، پھر حکمرانوں کے درباروں میں دنیاوی فوائد حاصل کرنے کیلئے ان کے پاس پہنچے کہ ان سے اس نکمی (اور فانی ہونے والی) دنیا سے کچھ حاصل کریں۔‘‘
ابو حازمؒ نے مزید فرمایا: ’’اس طرح حکمران علماء سے بیزار ہوگئے، ایسے بعض علماء ذلیل و خوار ہوئے، وہ بیک وقت حکمرانوں اور رب تعالیٰ کی نگاہ سے گر گئے۔ اگر علماء سے بے نیاز رہتے تو یقینا حکمران ان کے علم و تقویٰ کی طرف رٖغبت کرتے، لیکن بعض علماء نے حکمرانوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا، جس سے وہ ان کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہو گئے۔‘‘
خلیفہ نے کہا: ابو حازم! آپ بالکل سچ کہتے ہیں، مجھے اور وعظ و نصیحت کیجئے۔ اے ابو حازم! میں نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا، جس کی زبان پر اکثر اوقات حکمت کی باتیں جاری ہوں۔
ابو حازمؒ نے فرمایا: اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں، جن کے دلوں پر اچھی بات اثر کرتی ہے، تو جو کچھ کہہ چکا ہوں وہ کافی ہے، اگر آپ کا شمار ان میں سے نہیں، تو پھر میںایسے خالی تیر جو بغیر کمان کے چلائے جائیں، اس بات کے حق میں نہیں ہوں۔
خلیفہ نے کہا: ابوحازم میں قسم دے کر کہتا ہوں آپ مجھے ضرور کوئی وصیت کریں۔ فرمایا: سنئے! میں ایک مختصر وصیت کرتا ہوں۔’’ اپنے رب عزوجل کی تعظیم کریں اور یہ کوشش کریں کہ خدا آپ کو وہاں دیکھے جہاں رہنے کا حکم دیا ہے اور وہاں کبھی نہ دیکھے، جہاں سے اس نے منع کیا ہے۔‘‘
یعنی جن گناہوں سے رب تعالیٰ نے بچنے کا حکم دیا ہے وہاں سے کبھی غائب نہ پائیں۔( مثلا فجر کے وقت مسجد میں حاضر ہونے کا حکم ہے تو اس وقت ہم بستر پر نہ ہوں۔ بازار میں نیچی نگاہ رکھ کر چلنے کا حکم ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہماری نگاہیں ادھر ادھر بھٹکتی رہیں اور اس حال میں رب ہمیں دیکھ رہا ہو کہ میری ہی دی ہوئی آنکھوں سے میری نافرمانی کررہے ہیں)۔ پھر الوداعی سلام کہا اور چلے گئے۔
خلیفہ نے کہا: ’’اے خیر خواہ عالم رب تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post