سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ: راہ حق کا مسافر

0

سیدنا عمرو بن عبسہؓ فرماتے ہیں کہ: جاہلیت میں، میں اپنی قوم کے خداؤں سے متنفر تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ میں اہل کتاب میں سے ایک شخص سے ملا، جو وادی القریٰ کے پاس واقع یہودیوں کے مسکن تیما کا رہنے والا تھا اور اسے بتایا: میں بتوں کی پوجا کرنے والی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک بار ہمارا قبیلہ ایسی جگہ قیام پذیر ہوا، جہاں کوئی صنم (بت) نہ تھا۔ ایک شخص نکلا اور چار پتھر اٹھا لایا، تین پتھروں کا چولہا بنا کر اس پر ہنڈیا چڑھا دی اور سب سے عمدہ اور خوب صورت نظر آنے والے چوتھے پتھر کو معبود بنا کر پوجنے لگا۔ ممکن تھا کہ کوچ کرنے سے پہلے اسے اس سے اچھا پتھر ملتا تو پہلے صنم کو پھینک کر اس کی بندگی کرنے لگتا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ معبودان باطلہ ہیں، نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضرر۔ آپ مجھے اس دین سے بہتر دین کی راہ سجھائیے۔
اس نے بتایا کہ مکہ سے ایک شخص ظاہر ہو گا، اپنی قوم کے معبودوں سے بے زاری کا اظہار کرے گا اور انہیں چھوڑ کر معبود واحد کی طرف بلائے گا۔ وہی بہترین دین پیش کرے گا۔ جب تو اس کا کلام سن لے تو اس کی پیروی کرنا۔ اب مکہ جانا ہی میرا مقصد بن گیا۔ میں پوچھتا رہتا: کیا وہاں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟ پھر وہ وقت آیا کہ ایک سوار مکہ سے آیا اور اس نے وہی واقعات سنائے جو میں مذکورہ اہل کتاب سے سن چکا تھا۔ میں نے رخت سفر باندھا اور مکہ پہنچ گیا۔
حضرت جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت عمرو بن عبسہؓ دونوں کہا کرتے تھے: ’’میں نے رسول اقدسؐ کے ساتھ اپنے آپ کو چوتھا مسلمان پایا ہے۔ مجھ سے پہلے نبی اکرمؐ، سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا بلالؓ کے علاوہ کوئی اسلام نہ لایا تھا۔‘‘ دونوں حضرات یہی کہا کرتے، ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں سے دوسرا کب ایمان لایا۔ اہل صفہ میں شامل مشہور صحابی حضرت عرباض بن ساریہؓ بھی بنوسلیم سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بھی حضرت عمرو بن عبسہؓ کی طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایمان لائے۔
بدر، احد اور خندق کی جنگیں ہو چکیں تو حضرت عمرو بن عبسہؓ مدینہ پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کر لی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ فتح خیبر کے بعد مدینہ آئے۔ (صحیح مسلم)
حضرت عمرو بن عبسہؓ غزوئہ طائف میں نبی اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔ خود روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اقدسؐ کے ساتھ طائف کے قلعے کا محاصرہ کیا۔ میں نے آپ کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جس نے ایک تیر پھینکا، اسے جنت میں ایک درجہ حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ اس روز میں نے سترہ تیر برسائے۔ حضرت عمرو مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اقدسؐکو یہ فرماتے بھی سنا: جس نے خداکی راہ میں ایک تیر چلایا، دشمن کو لگا یا نہ لگ سکا، ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب پائے گا۔ جس نے خدا کی راہ میں اپنا بڑھاپا گزارا، روز قیامت اس کے لیے نور کا کام دے گا۔ جس نے ایک مسلمان غلام آزاد کیا، خدا تعالیٰ غلام کی ہر ہڈی کے بدلے میں اس کی ہر ہڈی بچائے گا اور جس کسی نے مومنہ عورت آزاد کی، خدا تعالیٰ عورت کی ایک ایک ہڈی کے بدلے میں آزاد کرنے والے کی ایک ایک ہڈی کو دوزخ سے بچا لے گا۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی)
حضرت عمرو بن عبسہؓ نے غزوئہ فتح مکہ میں شرکت کی۔ حضرت کعبؓ کے غلام نے بیان کیا: ہم حضرت عمرو بن عبسہؓ، حضرت مقداد بن عمروؓ اور حضرت مسافع بن حبیبؓ کے ساتھ سفر پر نکلے۔ سب کے ساتھ مویشی بھی تھے۔ ایک دن کڑی دوپہر کے وقت میں نے دیکھا کہ حضرت عمرو بن عبسہؓ سوئے پڑے ہیں اور ان پر ایک بادل سایہ فگن ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ خاص انہی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ وہ بیدار ہوئے اور بتایا: یہ ابر آتا رہتا ہے، پھر مجھے متنبہ کیا کہ یہ بات کسی کوہر گز نہ بتانا۔ مجھے پتا چلا کہ تو نے ایسا کیا ہے تو تمہاری خیر نہ ہو گی۔ بخدا ان کی وفات تک میں نے یہ بات کسی کو نہ بتائی۔ (حلیۃ الاولیاء) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More