ایک مرتبہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ سے آپؒ کے مرشد حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے پوچھا کہ نظام الدین! کیا تم محب بننا چاہتے ہو یا محبوب؟
نظام الدین اولیاءؒ گہری سوچ میں پڑ گئے۔ آپؒ ہر بات اپنی ماں سے پوچھنے کے بعد بتایا کرتے تھے، پھر فرمایا: میں اپنی والدہ سے پوچھ کے بتائوں گا۔
چنانچہ گھر کی طرف تیزی سے چلے۔ راستے میں دیکھا کہ ایک دکان کے قریب ایک مجذوب بیٹھا ہے۔ پھٹے ہوئے کپڑے، گرد آلود بال، بہت بری حالت۔ اور وہ مجذوب نے پوچھا: اے نظام الدین! آج اتنی تیزی میں کہاں جا رہے ہو؟
آپؒ نے کہا: میرے مرشد نے مجھے آج کہا ہے کہ محب بننا چاہو گے یا محبوب؟ تو بس میں اپنی والدہ سے پوچھنے جا رہا ہوں تو مجذوب کہنے لگا: یہ تو میں بتا دوں آپ کو۔آپ نے کہا نہیں نہیں، میں اپنی والدہ سے ہی پوچھ کر بتاؤں گا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ گھر پہنچے اور اپنی والدہ سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کل صبح جواب دوں گی۔ اگلی صبح آپ کی والدہ نے فرمایا کہ گھر کے باہر ایک مجذوب ہیں، ان سے جا کر پوچھو۔ وہ جواب دیں گے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ جب اس دکان کے پاس پہنچے، جس کے باہر مجذوب بیٹھے تھے تو دیکھا کہ وہ وہاں نہیں ہیں۔ دکاندار سے پوچھا کہ وہ کہاں گئے تو اس نے کہا کہ اسے کچھ لوگ یہاں سے گھسیٹ کر لے گئے۔
خواجہ نظام الدینؒ نے فرمایا کہ وہ کہاں چلے گئے؟ ابھی تو انہوں نے میرے سوال کا جواب بھی نہیں دیا۔ پھر پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہو سکتے ہیں؟ دکاندار نے بتایا کہ اتنی بری حالت کے انسان کو شاید ان لوگوں نے پاؤں سے گھسیٹ کر علاقے سے باہر پھینک آئے ہیں۔
خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچ گئے اور دیکھتے ہیں کہ کیچڑ میں پھینکا ہوا ہے مجذوب کو۔ پھر مجذوب کو آواز دے کر پوچھنے لگے کہ آپ مجھے میرے سوال کا جواب دیں۔
وہ مجذوب اس وقت ہی اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے کہ مجھے دیکھو۔ میں محِب بنا تھا۔ ہمیشہ در بدر رہا۔ بال بکھرے اور کپڑے پھٹے رہے۔ نظام الدینؒ تم محبوب بن جاؤ۔ ناز نخرے اٹھائے جائیں گے۔ پھولوں پہ رکھا جائے گا۔ یہ کہنے کے بعد وہ پھر سے گر گیا۔
خواجہ نظام الدین اولیائؒ اپنے مرشد کے پاس گئے اور عرض کی کہ میں محبوب بننا چاہتا ہوں حضور۔ محب کی طاقت نہیں مجھ میں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ خدا رب العزت نے خواجہ نظام الدین اولیائؒ کو اپنے محبوبین میں شامل کیا اور محبوبِ الٰہی کا لقب ملا۔ (حوالہ اقتباس الا نوار 422)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post