کشمیریوں کیخلاف نسل کشی کی مہم

0

پلوامہ واقعے کے بعد سے سارے ہندوستان میں کشمیریوں کو بدترین آزمائش کا سامنا ہے۔ بھارت میں مقیم کشمیری طالب علموں کے ساتھ مقامی مسلمانوں پر انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے پر تشدد واقعات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ بھارتی سیکورٹی ادارے اور پولیس بھی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ خاص کرکے بھارتی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کشمیری طلبہ پر تو زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد درجنوں کشمیری طلبہ کو مختلف جامعات سے نکالا جا چکا ہے۔ بھارت میں مقیم کشمیریوں کو واپس جانے یا سنگین نتائج کے لئے تیار رہنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کے گھروں اور کاروباری مراکز پر بھی حملے جاری ہیں۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے، بچے اسکول جانے سے محروم اور کاروباری مراکز پرتالے پڑے ہیں۔ مختلف علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا کی بھی قلت ہو گئی ہے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی بند ہے۔ حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں کشمیری طلبہ اور تاجروں پر حملے شرم ناک ہیں، طلبہ کو کھلی دھمکیاں اور تعلیمی اداروں سے بے دخلی قابل مذمت ہے۔ جبکہ حریت قیادت نے سری نگر سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے بھارتی شہروں میں کشمیریوں کو مارنے پیٹنے، بے عزت کرنے، ان کی دکانوں کی لوٹ مار کا بہیمانہ عمل کشمیر ی نوجوانوں کو مزید بغاوت کے راستے پر گامزن کرنے کا کام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ پولیس کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ حریت قائدین نے کہا کہ جب کشمیریوں کو مار ڈالنے، ان کی عزت و ناموس چھیننے اور ان کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی باتیں کھلے عام کی جا رہی ہوں اور ٹی وی چینلوں کو بھی نفرت اور زہر پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہو تو ان بدترین حملوں کو کیسے اور کیونکر محض غم و غصے کا اظہار سمجھا جائے گا۔ دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار اور گیارہ ریاستوں کے سربراہان کو حکم جاری کیا ہے کہ کشمیری طالب علموں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
مسلم کش فسادات ہندوستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ان فسادات کا پہلی بار مؤثر انسداد احمد شاہ ابدالی نے کیا تھا۔ جب مرہٹوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی حرام کر رکھی تھی۔ ظلم و ستم سے تنگ آکر حضرت شاہ ولی اللہؒ نے افغانستان کے بادشاہ کو داد رسی کے لئے خط لکھا اور 1760ء کے اختتام پر احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا قصد کیا۔ ابدالی نے روانگی سے قبل بلوچ سرداروں کو مرہٹوں کے ظلم و تشدد سے مطلع کیا اور جب افغان مسلمانوں کا لشکر جرار جنوری 1761ء میں اٹک پھاٹک پر پہنچا تو بگٹی، مینگل، مری، لاسی اور جمالیوںسمیت درجنوں بلوچ قبائل کے مسلح نوجوان اس لشکر میں شامل ہوگئے۔ 14 جنوری کو پانی پت (حال ہریانہ) میں مرہٹوں کو شکست دے کر اس لشکر نے مسلمانوں کو مرہٹوں سے نجات دلا دی۔
احمد شاہ ابدالی کو لٹیرا کہنے والے دانشوروں کو شاید اس حقیقت کا پتہ نہیں کہ پانی پت میں مرہٹوں کے استیصال اور دہلی میں بچے کھچے شرپسندوں کی گوشمالی کے بعد ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بجائے احمد شاہ ابدالی یہ کہہ کر افغانستان واپس چلا گیا کہ ’’میں مرشد (شاہ ولی اللہ) کے حکم پر ہندی مسلمانوں کی نصرت کے لئے یہاں آیا تھا۔ مال کی لالچ تھی اور نہ کشور کشائی کا شوق۔‘‘
احمد شاہ بابا کے نام سے مشہور زرغون جان کے اس فرزند نے ملک واپس جاتے ہوئے غلام و کنیز سمیت سارا مالِ غنیمت اپنے بلوچ سپاہیوں میں تقسیم کر دیا اور بلوچوں کا ظرف کہ انہوں نے سارا مال مقامی آبادی کو
بخش دیا۔ غلاموں اور کنیزوں کو جبری مسلمان بنانے کے بجائے انہیں نہ صرف آزاد کر دیا، بلکہ عزت و احترام کے ساتھ ڈیرہ بگٹی، لسبیلہ، خصدار اور دوسرے علاقوں میں رہائش اور سرکاری ملازمتیں عطا کیں۔ ان علاقوں میں آج بھی ہندو امن و امان اور عزت و احترام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
عجیب اتفاق کہ 160 سال بعد مہاراشٹرا کا ایک اور مرہٹہ نریندرا مودی کشمیری مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیل رہا ہے۔ لیکن احمد شاہ ابدالی کے فرزند مدد کے لئے آنے سے قاصر ہیں کہ یہ مردانِ حر گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف آزادی اور اپنے دین و ثقافت کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جدوجہد اب فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ ایک بار وہاں سے غیر ملکی سپاہ واپس ہو جائے تو دورِ جدید کے مرہٹو ں کی گوشمالی کے لئے غزنی کے غازی چند ہی دنوں میں سری نگر پہنچ سکتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں سے کشمیری مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کی توقع ہی فضول ہے۔ پاکستان پر بھارت مسلسل الزامات لگا رہا ہے اور ہمارے سیاستدان بھی ہندوستان کی بولی بول رہے ہیں۔ چند دن پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممتاز ’’دانشور‘‘ جناب مشاہد حسین نے ایران اور ہندوستان میں خود کش حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے بقراطی فرمائی تھی کہ:
’’پاکستان کو اپنا گھر درست کرنا چاہیے اور کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کے خلاف پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرے۔‘‘
پھر گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے مخصوص مصنوعی لہجے میں فرمایا ’’ہمیں اپنا گھر House in Order کرنا چاہئے۔‘‘
بات تو بظاہر درست ہے، لیکن موجودہ تناظر میں یہ ہندوستان کے مؤقف کی حمایت کے مترادف ہے۔ دو روز قبل ہی کل بھوشن مقدمے میں ہندوستان کے وکیل نے بمبئی حملے کے حوالے سے نواز شریف کے بیان کو عالمی عدالت کے روبرو اپنی دلیل بلکہ گھر کی گواہی کے طور پر پیش کیا ہے۔
وزیر اعظم کے رفقا نے مشاہد حسین کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ دیکھنا ہے کہ عمران خان اپنے اس ’’امن پسند‘‘ وزیر کی گوشمالی کے لئے کیا کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے چند دن پہلے میونخ (جرمنی) میں اسرائیل کے لئے نیک تمنائوں کا اظہاربھی فرمایا تھا۔
انصاف کی تدفین:
سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا پہلا اور کلیدی مرحلہ مکمل ہوگیا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ذیشان احمد کو مشکوک ثابت کردیا۔ یہ دراصل اس Profiling مہم کا تسلسل ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک عرصے سے شروع کر رکھی ہے۔ یعنی ان نوجوانوں کو خورد بین کے نیچے رکھ لیا جائے جو باقاعدگی سے مسجد جاتے ہیں، باریش ہوں، طبعاً نیک و شریف ہوں، اجتماعی خیر کے لئے سرگرم ہوں اور اپنے علاقوں میں زیادتیوں اور ظلم کے خلاف آواز
اٹھانے والے ہوں۔ بچیوں کے لئے Profiling کے باب میں مندرجہ بالا صفات کے ساتھ حجاب کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ ترجیحات دنیا کے ’’بڑوں‘‘ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے 9/11 کے بعد طے کردی ہیں، جسے نیشنل ایکشن پلان میں ٹانک کر قومی بیانیے کی شکل دیدی گئی۔ اب ہر مولوی، مدرسے کا طالب علم، پردہ دار لڑکی، حافظہ اور گلی محلوں میں سرگرم باریش نوجوان مشکوک ہیں۔
ان معیارات کے مطابق دہشت گردوں کے لئے ایک شناختی ٹوپی تیار کی گئی ہے اور یہ ٹوپی جس غریب کے سر پر ٹھیک آجائے، اس کا سر گرانے کا حکم جاری ہو جاتا ہے۔ ساہیوال کا ذیشان بھی انہی بدنصیبوں میں سے تھا، جس کے سر پر یہ ٹوپی فٹ بیٹھ گئی اور کراچی کی اصطلاح میں اس کے نام کی سپاری جاری ہوگئی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ تو اب شائع ہوگئی ہے، لیکن نتائج پہلے دن سے نوشتہ دیوار اور آثار پہلے دن سے بہت واضح تھے:
٭… صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت، صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور ان کے وفاقی ہم منصب فواد چوہدری پہلے دن سے ذیشان کو دہشت گرد یا کم از کم دہشت گردوں کا سہولت کار کہہ رہے تھے۔
٭… وزیراعظم اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سے بات کرنے لاہور گئے، لیکن انہوں نے سوگواروں کے پاس جانے سے گریز کیا۔
٭… عوامی جذبات کے احترام میں ذیشان کو کھلے عام دہشت گرد قرار دینے کے بجائے اسے مشکوک قرار دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔
اور اب جبکہ عوامی جذبات ٹھنڈے ہو چکے ہیں تو جے آئی ٹی کی بلی تھیلے سے باہر نکال دی گئی۔
صاحبو! گزشتہ انتخابات میں کچھ بھی نہیں بدلا، نہ کوئی تبدیلی آئی ہے، بس چہروں پر نیا نقاب آگیا ہے۔ راجہ بشارت پہلے نواز شریف کے شیر تھے۔ اب دیندار نوجوانوں پر بلا گھما رہے ہیں۔ مشرف کے دربار سے وابستہ فواد چوہدری اب بارگاہِ بنی گالہ سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون ہوں یا بچوں کے دودھ کی رقم ہڑپ کرنے والی زبیدہ جلال سب ہی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ مافیا کے لوگ ہیں۔
قطر بائیکاٹ میں نرمی:
موانی ابوظہبی (Abu Dhabi Ports Authority) نے قطر کے خلاف بائیکاٹ میں غیر اعلانیہ نرمی کر دی ہے۔ ایک یادداشت میں پورٹ افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ قطر جانے والے ان تیل ٹینکروں کو نہ روکا جائے، جو قطر کے علاوہ کسی اور ملک کی ملکیت ہوں یا ان پر دو سرے ممالک کے پرچم لہرا رہے ہوں۔ گویا قطری ٹینکروں اور جہازوں پر پابندی برقرار رہے گی۔ تاہم دوسرے ملکوں کے ٹینکر متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں سے ہوتے ہوئے قطر آ اور جا سکیں گے۔
20 ماہ پہلے سعودی عرب، بحرین، یمن ، مصر اور لیبیا نے قطر سے سفارتی تعلقات توڑ کر اپنے ملکوں کی بری، بحری اور فضائی سرحدیں بند کر دی تھیں اور قطر کے لئے Transit کی سہولت بھی ختم کر دی گئی تھی، یعنی دوسرے ملک کے جہازوں کو بھی قطر جاتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ پر رکنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان ملکوں کا الزام ہے کہ قطر اخوان المسلمون اور حماس جیسی ’’دہشت گرد تنظیموں‘‘ کو اقتصادی اور سفارتی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ساتھ یہ بھی الزام تھا کہ قطری حکومت کی ایما پر خلیجی اور عرب حکومتوں کے خلاف الجزیرہ ٹیلی ویژن جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔
اکثر پابندیاں اب بھی برقرار ہیں، لیکن یہ معمولی سی نرمی بھی چھوٹا ہی سہی، لیکن درست سمت میں ایک قدم ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More