پاکستان کا پانی روکنے کی بھارتی دھمکی بڑھک قرار

0

نجم الحسن عارف
ماہرین نے پاکستان کا پانی روکنے کی بھارتی دھمکی بڑھک قرار دے دی ہے۔ تین مغربی دریاؤں میں سے دو کا مکمل کنٹرول نہ ہونے کے باعث بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی روکے جانے کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ تاہم بھارت نے اپنے زیر اثر دریائے چناب پر متعدد چھوٹے بڑے پاور پروجیکٹس مکمل کرلئے ہیں، جس پر حکومت پاکستان نے تاحال نوٹس نہیں لیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے سندھ طاس کمشنر مہر علی شاہ کے زیر قیادت بھارت کا دورہ کرنے والے وفد کو دریائے چناب پر کم از کم چار اہم اور بڑے منصوبوں کا معائنہ نہیں کرایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان چار منصوبوں پر بھارت چوری چھپے کام شروع کر چکا ہے۔ لیکن اس نے اب تک پاکستان کے ساتھ ان چار بڑے پاور پراجیکٹس کا ڈیزائن شیئر کیا ہے نہ ہی اس بارے میں اپنی تیاری سے آگاہ کیا ہے۔ حتیٰ کہ ماہ جنوری کے آخر میں جب پاکستان کا وفد سندھ طاس کمشنر کی زیر قیادت وہاں پہنچا تو بھارتی حکام نے یہ چاروں منصوبے پاکستانی وفد کی پہنچ سے دور رکھے۔ البتہ ان کے مقابلے میں بگلیہار ڈیم سمیت پہلے سے مکمل شدہ چھوٹے منصوبوں کا معائنہ کرا دیا، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی رکن وفد نے اس پر احتجاج کیا اور نہ ہی ابھی تک متعلقہ حکام نے کوئی دوسرا ’’انیشی ایٹو‘‘ لیا ہے۔ بھارتی وزیر برائے آبی وسائل نے تین مشرقی دریائوں کا حوالہ دے کر پاکستان کو جو دھمکی دی ہے درحقیقت ایک محتاط بیان دیا ہے، تاکہ بھارت عالمی سطح پر پکڑ میں بھی نہ آ سکے اور پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی سازش بھی آگے بڑھاتا رہے۔
واضح رہے کہ 1960ء سندھ طاس کے معاہدے کے تحت تین مشرقی دریائوں راوی، ستلج اور بیاس پر کلی طور پر بھارت کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ تین مغربی دریائوں دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے پانیوں پر کلی طور پر پاکستان کا حق ہے۔ سندھ طاس کے ڈپٹی کمشنر پاکستان شیراز جمیل میمن کے مطابق ان میں سے بھارت دریائے چناب کے پانی پر اب تک سب سے زیادہ جارحیت کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔ کہ اس کے تقریباً سو فیصد پانی کے مراکز بھارتی زیر قبضہ علاقوں میں ہیں۔ گویا اس کا سارا پانی ان علاقوں سے پاکستان میں آتا ہے جو بھارت کے زیر قبضہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں دریائے جہلم کا 40 فیصد پانی بھارتی زیر قبضہ علاقوں سے مجموعی دریائی پانی میں شامل ہوتا ہے، جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے دریائے سندھ کے مجموعی پانی کا صرف دس فیصد بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس لئے تین مغربی دریائوں میں سے آخر الذکر دونوں دریائوں کے پانیوں پر اثر انداز ہونے کا بھارت کے پاس امکان انتہائی محدود ہے۔ البتہ بھارت دریائے چناب کے پانی پر اثر انداز ہونے کی ماضی میں بھی کوشش کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کر سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر سندھ طاس شیراز جمیل میمن نے اس امر کا انکشاف کیا کہ ہمارے کمیشن کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران ایک مرتبہ پھر بھارت کے دریائے چناب کے پانی سے متعلق منفی عزائم اس طرح ظاہر ہوئے کہ اس نے ہمارے وفد کو سوال کوٹ پر زیر تعمیر 1856 میگا واٹ کے متنازع منصوبے، بھرسر کے مقام پر ایک ہزار میگا واٹ کے متنازع منصوبے، کیرو کے مقام پر 560 میگا واٹ کے منصوبے اور دوہستی کے 780 میگاواٹ کے متنازع منصوبے کا پاکستانی وفد کو معائنہ نہیں کرنے دیا ہے۔ خیال رہے کیرو پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد انتہا پسند وزیر اعظم مودی نے حال ہی رکھا ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں بگلیہار سمیت تین دیگر چھوٹے اور مکمل شدہ منصوبوں کا معائنہ کرا دیا۔ شیراز جمیل میمن نے یہ بتاتے ہوئے حیران کر دیا کہ دوہستی پاور پراجیکٹ کے ریسٹ ہائوس میں تو پاکستان کے وفد کو ٹھہرایا گیا لیکن قریب ہی بنے زیر تعمیر منصوبے کا معائنہ نہیں کرایا گیا۔ حد یہ کہ اس بارے میں ہمارے وفد کے ارکان نے بھی اب تک نوٹس نہیں لیا ہے۔ خیال رہے سوال کوٹ پاور پراجیکٹ کی ٹینڈرنگ سے متعلق اطلاعات پاکستان کے علم میں دوسرے ذرائع سے پہلے ہی آ چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حکام نے ابھی تک اس سلسلے میں باضابطہ کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہے، نہ ہی بھارت کو کوئی نوٹس دیا گیا ہے۔
دوسری جانب سابق کمشنر سندھ طاس پاکستان مہر علی شاہ نے بھارتی وزیر برائے آبی وسائل کے پاکستان مخالف بیان کو بڑا ’’اسمارٹ‘‘ قرار دیا کہ بظاہر تو یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا اشارہ نہیں ہے لیکن بھارت کی پاکستان کے بارے میں بد نیتی اور تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو بھارت آئندہ دنوں پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے گا۔ انہوں نے کہا سندھ طاس کمشنر کے طور پر جو چیزیں بطور خاص میرے تجربے میں آئی ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے پر عمل سے ہمیشہ فرار کی راہ تلاش کرتا ہے۔ معاہدے کے تحت طے شدہ شیڈول کے مطابق وہ دو طرفہ میٹنگز سے بھی گریز کرتا ہے۔ اپنے مجوزہ منصوبوں کے ڈیزائن کو خفیہ رکھنے اور پاکستان سے چھپانے کی کوشش میں رہا ہے۔ اب بھی یہی کر سکتا ہے۔ نیز پاکستان کی طرف سے مانگی جانے والی معلومات دینے میں تاخیری حربے استعمال کرتا ہے۔ جب پاکستان کسی متنازع منصوبے پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بھارت ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ یہ سب سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے بارے میں بد نیتی سے کام لیتا رہا ہے۔ اب بھی وہ بد نیتی سے ہی کام لے گا۔ اب کی بار بھارت نے بظاہر اپنے ہی تین مشرقی دریائوں کے بارے میں بیان دیا ہے۔ ہمارے متعلقہ ماہرین اور حکام کو اس کا ضرور نوٹس لینا چاہیے کہ ہمیں اپنے دفتر خارجہ کے ذریعے اپنی حکمت عملی بروئے کار لانی چاہئے۔ اسی طرح اپنے تین مغربی دریائوں کے حوالے سے بھارتی مقبوضہ علاقوں میں اپنی انٹیلی جنس کو مزید مضبوط کرنا چاہئے۔ مودی سرکار مشرقی دریائوں کی بات کرکے مغربی دریائوں کے پانی میں نقب لگانے کی کوشش کر سکتی ہے جیسا کہ مودی نے دسمبر 2016ء میں کہا تھا کہ بھارت 1960ء کے سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کر سکتا ہے۔ ہمیں اس بارے میں اپنے موقف پر نہ صرف مضبوط رہنا چاہئے بلکہ آنے والے دنوں میں اگر بھارت کوئی ایسی چال چلتا ہے تو اس کا ہمہ پہلو توڑ کرنے کیلئے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت دریاؤں کے پانی سے متعلق ہمارے نالائقیوں سے فائدہ اٹھا لے۔ جہاں تک مشرقی دریائوں کے پانی کے مکمل بھارتی استعمال کے سوال کا تعلق ہے، اس کے پاس اس کا حق تو ہے لیکن اس کی صلاحیت نہیں ہے۔ بھارت اس پانی سے 17 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کر سکتا ہے، لیکن ابھی تک بھارت آٹھ لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو سیراب کر سکا ہے۔ اسی لئے مودی کے آنے کے بعد بھارت نے ’’رن آف ریور‘‘ ہائیڈرالک منصوبوں کی خصوصی منصوبہ بندی کی ہے اور بھارت جنگی بنیادوں پر چھوٹے ڈیم بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بھی بھارتی آبی جارحیت کیخلاف الرٹ رہنا ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں سابق کمشنر سید جماعت علی شاہ نے کہا کہ اگر بھارت نے دریائے راوی پر بنے تھین ڈیم کو پاکستان کے خلاف کبھی سیلابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تو خود اس کے اپنے سیکڑوں کلومیٹر کے علاقے سے گزرنے کے بعد ہی یہ سیلاب پاکستان کے علاقے میں داخل ہو گا۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے الرٹ اور مستعد رہیں۔ بھارت پر دبائو رکھیں، اسے چیزیں التواء میں ڈالنے کا موقع نہ دیں اور بھارت کی کسی بھی چال میں نہیں آنا چاہئے جیسا کہ بھارت دریائے چناب پر پاکستان کو مشترکہ طور پر ڈیم بنانے کی تجویز دے چکا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی اسے رد کر دیا تھا۔ اب بھی ایسی کسی چال کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ہمارے تکنیکی ماہرین کو بھارتی دھمکیوں کے تکنیکی پہلوئوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ پاکستان کے سابق کمشنر سندھ طاس آصف بیگ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین مشرقی دریائوں کا سارا پانی بھارت کے زیر استعمال لانے والی بات ایک سیاسی بھڑک سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ان حربوں کا اسے ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ کشمیر کی صورت حال سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے، یہ کسی ایک ملک کو ویٹو کا حق نہیں دیتا کہ وہ جو چاہے کرتا رہے۔ اگر بھارت نے مشرقی دریائوں کا نام لے کر پاکستان کے مغربی دریائوں کے بارے میں اپنے کسی منفی منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو پاکستان اسے اپنے خلاف بھارتی جنگ سمجھے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ بھارت اگر پاکستان کے مغربی دریائوں کے پانی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تو بہت پہلے ایسا کر چکا ہوتا۔ بھارت اس پوزیشن میں ہے نہ پاکستان اور سندھ طاس معاہدے کو ممکن بنانے والی عالمی طاقتیں اسے کمانڈنگ پوزیشن میں آنے دیں گی۔ وہ سیلابی حربہ بھی پاکستان کے خلاف آزمانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ 200 سے تین سو کلو میٹر کا مشرقی پنجاب کا علاقہ پاکستان کے علاقے سے پہلے سیلاب کی زد میں آجائے گا لیکن اس کے باوجود بھارتی عزائم سے ہمیں ہمہ وقت ہوشیار رہنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More