نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو مولانا فضل الرحمن پر اعتماد نہیں

0

وجیہ احمد صدیقی
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن مارچ میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب ملین مارچ اور اس کے بعد دھرنا دینے کی تجویز لے کر اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس جارہے ہیں۔ لیکن دونوں بڑی جماعتوں نے اب تک انہیں کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ مولانا چاہتے ہیں کہ ان کی تحریک کو محض ان کی سیاسی جماعت کی تحریک نہ قرار دیا جائے اور یہ کہ ان کے ساتھ دونوں بڑی جماعتیں ضرور شامل ہوں۔ تاہم ذرائع کے مطابق ملک کی اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی خواہش مند ضرور ہیں لیکن موجودہ حکومت کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ دیکھ کر وہ کوئی ایسی تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں۔ کیونکہ دونوں جماعتیں جانتی ہیں کہ مقتدر حلقوں کی حمایت اور مرضی کے بغیر کسی حکومت کو گرانے کی کوشش کرنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ البتہ دونوں جماعتیں پارلیمنٹ میں شور مچاتی رہیں گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو یہ بھی خطرہ ہے کہ احتجاج کی صورت میں ان کے اراکین پارلیمنٹ اپنی وفاداریاں بدل سکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول دونوں جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی خواہاں ہیں، لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس حوالے سے متفق نہیں ہو پارہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نون لیگ کو پی پی پر اعتماد نہیں اور پیپلز پارٹی، نواز لیگ کے ساتھ نتھی نہیں ہونا چاہتی۔ ان دونوں جماعتوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن تحریک کے زور پکڑنے پر کسی بھی وقت حکومت یا اداروں کے ساتھ سودے بازی کرسکتے ہیں۔
لیگی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) نے ابھی ایسی کسی تحریک میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔ پھر ایسی کوئی تحریک چلانے کے لئے سیاسی جماعتوں میں باہمی اعتماد کا ہونا ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں راجہ ظفرالحق کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار کی حمایت کی اور اپنا امیدوار ڈپٹی چیئرمین بنوا لیا۔ قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کا ساتھ نہیں دیا اور الیکشن میں غیر جانبدار رہی۔ ان ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی گرفتاریوں پر پیپلز پارٹی کا رد عمل محض رسمی سا تھا۔ اسی طرح زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائیوں پر نواز لیگ نے بھی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایک طرف ان کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور دوسری طرف وہ مشرف کے ساتھ این آر او طے کر رہی تھی۔ ادھر پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سے پہلے میاں نواز شریف پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کرکے سعودی عرب فرار ہوگئے تھے۔ انہوں نے نہ صر ف پی پی کو بلکہ پوری اے آر ڈی کو دھوکہ دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کر رہے ہیں۔ لیکن متحدہ مجلس عمل کی شریک پارٹی جماعت اسلامی اب جے یو آئی کی کسی مہم کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ بلکہ عملاً وہ ایم ایم اے سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ جماعت اسلامی اتحاد کی سیاست کر کے اپنا سیاسی وجود کھو چکی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ اسٹریٹ پاور رکھتی ہے۔ لیکن اب یہ نظر آرہا ہے کہ وہ بمشکل بلدیاتی الیکشن میں اپنا کوئی کونسلر بھی منتخب کراسکے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر نون لیگ نے جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی کی 9 نشستوں کی پیشکش کی اور اسی تناسب سے صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی پیش کش کی، جس پر جماعت اسلامی کی جانب سے کہا گیا کہ ففٹی ففٹی پر بات کریں کی جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کی عوامی حمایت یکساں ہے۔ تاہم یہ دعویٰ کرنے کے بعد جماعت اسلامی اکیلے میدان میں کودی اور نتائج سب کے سامنے رہے کہ جماعت اسلامی خیبر پختون تک محدود ہوکر رہ گئی۔ تحریک انصاف نے بھی جماعت اسلامی کے ووٹرز چھین لیے۔ اب جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمن کی حکومت مخالف تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہتی، کیونکہ کسی اور کو اقتدار میں لانے کے لئے اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔
جے یوآئی (ف) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ الیکشن قرار دینے کے بعد سے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے بھی الیکشن کے نتائج مسترد کر دیئے تھے لیکن انہوں نے مولانا کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ موجودہ پارلیمنٹ کے تحت حلف نہ اٹھایا جائے۔ مولانا فوری طور پر نئے الیکشن چاہتے تھے۔ لیکن دیگر اپوزیشن جماعتوں کا موقف تھا کہ الیکشن میں دھاندلیوں کی تحقیقات کرائی جائے اور حکومت کو حکمرانی کا موقع دیا جائے۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مصلحت اور مجبوریوں کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے اپوزیشن حکومت کے خلاف طاقتور اور مضبوط کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ جے یو آئی کے ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے رہنما سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنے ایک انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاسی خاموشی اور ڈیل و ڈھیل کی خبروں کے حوالے سے کھل کر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ڈھیل ہو یا ڈیل، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ اگر انہیں کوئی مشکل ہے تو جواں مردی سے اس کا مقابلہ کریں۔ کسی سیاسی جماعت کا ڈیل کرنا ایک اچھا عمل نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی کارکردگی کو صفر قرار دیتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس وقت اصل اپوزیشن کا کردار جمعیت علمائے اسلام (ف) کر رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More