حضرت جنید بغدادیؒ کو خواب میں حضور اقدسؐ کی زیارت اور وعظ کہنے کا حکم ہوا تو صبح حضرت سری سقطیؒ تشریف لائے اور آپؒ کے دروازے پر دستک دی۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے دروازہ کھولا تو پیر و مرشد کو موجود پایا۔
’’جنید! ہم تو کب سے کہہ رہے تھے کہ وعظ کہا کرو، مگر تم نے ہماری باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔‘‘ حضرت سری سقطیؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’لیکن اب تو ہمیں رسالت پناہؐ کے دربار اقدس سے بھی اجازت مل گئی ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے حیرت و ادب کے ساتھ سر جھکا لیا۔ پھر نہایت عاجزانہ لہجے میں عرض کیا۔
’’ میرا خیال تھا کہ میں فصاحت زبان اور بلاغت بیان سے محروم ہوں۔ اسی لئے ڈرتا تھا کہ کہیں لوگ میری بات سننے سے انکار نہ کردیں۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ نے فرمایا ’’تمہاری جھجک اور ڈر اپنی جگہ، مگر اب تو تمہیں بارگاہ سالت مآبؐ سے سند حاصل ہوگئی ہے۔ بندگان خدا کا ہجوم تمہارا متظر ہے۔ خلوت سے مجلس کی طرف آؤ۔‘‘
دوسرے دن حضرت جنیدؒ جامع مسجد میں حاضر ہوئے۔ نماز ادا کرنے کے بعد حاضرین مسجد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اہل ایمان! میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جنید! ہم تو برسوں سے گوش برآواز ہیں، مگر آپ کچھ کہتے ہی نہیں۔‘‘ حاضرین مجلس میں سے چند معمر افراد نے بغداد کے ایک نوجوان فقیر کی بات سن کر کہا۔ ’’ہمیں یقین ہے کہ آپ بڑی پر تاثیر گفتگو کریں گے اور لوگوں کے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگائیں گے اور مُردہ دلوں میں نئی روح پھونکیں گے۔‘‘
لوگوں کا یہ اندازِ پذیرائی دیکھ کر حضرت جنید بغدادیؒ حیران رہ گئے۔ دراصل یہ بھی حضرت رسالت مآبؐ کی روحانی برکت تھی کہ رب تعالیٰ نے وعظ بیان کرنے سے پہلے ہی سامعین کو حضرت جنیدؒ کی طرف متوجہ فرما دیا تھا۔
اس مختصر سی گفتگو کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے رب کی کبریائی بیان کی۔ پھر پیغبر اسلامؐ کی شان میں جذبات عقیدت کا اس طرح اظہار کیا کہ حاضرین کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ پھر آپؒ نے فقر کے موضوع پر تقریر شروع کی تو سننے والے وارفتہ ہوگئے۔ بعض لوگوں پر آپ کے پُر سوز لہجے کا اتنا اثر ہوا کہ وہ شدت جذبات سے مغلوب ہوکر مسجد کے فرش پر تڑپنے لگے۔
اپنی پہلی تقریر کے سلسلے میں خود حضرت جنید بغدادیؒ کا بیان ہے کہ ہونٹوں کو جنبش دینے سے پہلے مجھے اپنے عجز بیان کا شدید احساس تھا، مگر جب میں نے سامعین کو حد سے زیادہ پر جوش دیکھا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ مسجد کے منبر سے جنید بول رہا ہے اور لوگ اس کے کلام کی تاثیر سے بے خود ہوئے جا رہے ہیں۔
آپؒ کی پہلی تقریر کے بعد بغداد کے گلی کوچوں میں ایک ہی بات کا شور تھا کہ اس شہر میں حضرت جنیدؒ جیسا فصیح البیان کوئی دوسرا نہیں۔ کعبی کا شمار فرقہ مقتدلہ کے معتبر ائمہ میں ہوتا ہے۔ ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ کے چند شاگرد کعبی کی مجلس میں پہنچے۔ اس وقت کعبی بڑے زور شور کے ساتھ کسی موضوع پر تقریر کر رہے تھے۔ پھر جب تقریر ختم ہوئی تو حاضرین مجلس نے ان کی تعریف کی۔ کعبی نے حضرت جنید بغدادیؒ کے شاگردوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں نے بغداد میں ان کے شیخ کو دیکھا ہے، جن کا نام جنیدؒ ہے۔ ادیب ان کے پاس الفاظ کی بندش سیکھنے آتے ہیں۔ فلسفی اس لئے حاضر ہوتے ہیں کہ جنیدؒ سے فلسفے کی موشگافیوں کو سمجھ سکیں اور شعراء اس لئے آتے ہیں کہ فصاحت و بلاغت کا عروج دیکھ سکیں۔‘‘
اگرچہ کعبی مختلف نظریات کے حامل تھے، مگر حضرت جنید بغدادیؒ کے فضل و کمال کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ لوگ جو صوفیاء پر کم علمی اور بے خبری کا الزام عائد کرتے ہیں، انہیں کعبی کی گواہی کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post