جمادی الثانی 13ھ عہد صدیقیؓ کے آخر میں رومیوں کے ساتھ یرموک کا تاریخی معرکہ ہوا۔ یرموک (Hieromyax) گولان کی پہاڑیوں کے جنوب مشرق میں چالیس میل کے فاصلے پر ایک سطح مرتفع ہے، جو موجودہ اسرائیل، اردن اور شام کی درمیانی سرحد پر واقع ہے۔ رومی فوج کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار، جبکہ اہل ایمان کی نفری چالیس ہزار سے کچھ کم یا زیادہ تھی۔ طبری کے بیان کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ اس وقت سپہ سالار نہیں، بلکہ ایک کمانڈر تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ باری باری ہر جرنیل کو سالاری کا موقع دیا جائے۔ اس طرح پہلے دن کی کمان ان کے حصے میں آئی۔ اپنی فوج کو بے ترتیب پا کر انہوں نے ایک خطبہ دیا، جس میں فوج کی صف بندی اور تنظیم کی اہمیت واضح کی۔ ادھر عیسائی راہبوں نے اپنے پیروؤں کو جنگ پر انگیخت کیا۔
حضرت خالدؓ نے فوج کو چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے دستوں میں بانٹ دیا، ہر دستہ کم و بیش ایک ہزار فوجیو ں پر مشتمل تھا۔ قلب میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اٹھارہ دستے، میمنہ پر حضرت عمرو بن عاصؓ کی کمان میں دس دستے اور میسرہ پر حضرت یزید بن ابو سفیانؓ کی سربراہی میں دس دستے تھے۔ ہراول دستے پر حضرت قباب بن اشیمؓ مقرر تھے۔ ایک دستے کی سربراہی حضرت عمرو بن عبسہؓ کے پاس تھی۔ دوسرے کمانڈروں میں حضرت قعقاع بن عمروؓ، حضرت عیاض بن غنمؓ، حضرت ہاشم بن عتبہؓ، حضرت خالد بن سعیدؓ شامل تھے۔ حضرت ابو الدردائؓ کو قاضیٔ لشکر، حضرت ابن مسعودؓ کو امیر بند وبست اور حضرت ابو سفیانؓ کو واعظ بنایا گیا۔
تاریخ اسلام کے اس اہم معرکے میں مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی۔ تین ہزار اہل ایمان نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ ایک لاکھ بیس ہزار رومی جہنم واصل ہوئے۔ رومی کمانڈر ان چیف، شاہ ہرقل کا بھائی تذراق (Theodore) اپنے انجام کو پہنچا اور شام میں رومی سلطنت (Byzantine or Esastern or Byzantine) کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔
جنگ یرموک میں حصہ لینے کے بعد حضرت عمرو بن عبسہؓ شام کے شہر حمص میں مقیم ہو گئے۔ رکوی ندی کے پاس ابن ابوسحنہ کی گلی میں ان کا گھر تھا۔ حمص میں بنو سلیم کے چار سو مزید اہل ایمان سکونت رکھتے تھے۔
17ھ میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطابؓ زندگی میں آخری بار شام گئے، مہاجرین وانصار کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی۔ سیدنا علیؓ کو مدینہ کا قائم مقام امیر مقرر کر کے وہ حجاز اور شام کی سرحد پر واقع شہر ایلہ پہنچے۔ ہر ضلع میں گھوم کر انہوں نے شام کی چوکیوں کو محفوظ بنایا، گرما و سرما کی الگ الگ فوجیں مقرر کر کے ان میں وظائف تقسیم کیے۔ سیدنا عمرؓ نے حضرت ابن قیسؓ کو ساحلی علاقوں کا حاکم بنانے اور اردن کے گورنر حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کو معزول کر کے گورنر دمشق حضرت معاویہؓ کو شام کے پورے صوبے کا حاکم مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ کو اہرا کا گورنر نامزد کر کے وہ شام سے رخصت ہوئے اور ذوالحجہ کے مہینے میں مدینہ پہنچ گئے۔
حضرت معاویہؓ نے رومیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ مدت معاہدہ ختم ہونے سے پہلے ہی وہ لشکر لے کر چل پڑتے اور جونہی مدت پوری ہوتی، ان پر حملہ کردیتے۔ اسی طرح کے ایک واقعہ میں لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار تکبیر کے ساتھ یہ پکارتے ہوئے چلا آرہا ہے: ’’ایفائے عہد ہوگا، عہدشکنی نہ ہو گی۔‘‘
وہ حضرت عمرو بن عبسہؓ تھے۔ حضرت معاویہؓ نے پچھوایا کہ بدعہدی کا کیا معاملہ ہے؟ حضرت عمرو بن عبسہؓ نے کہا: میں نے رسول اقدسؐ کو فرماتے سنا ہے، جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو مدت معاہدہ ختم ہونے سے پہلے معاہدے میں کوئی کمی بیشی کرے نہ اسے توڑے۔ ہاں معاہد کی طرف سے بدعہدی ہو تو وہ معاہدہ توڑ سکتا ہے۔ حضرت معاویہؓ نے یہ سنا تو لشکر لے کر واپس چلے گئے۔ (ابو داؤد، رقم، ترمذی، احمد) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post