مزید10ہزار بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر پہنچ گئے

0

لاہور/سرینگر/واشنگٹن(نمائندہ امت/مانیٹرنگ ڈیسک/امت نیوز) بھارت مقبوضہ کشمیر میں جنگ کا ماحول پیدا کرنے لگا، مزید 10 ہزار فوجی سرینگر پہنچا دیئے گئے ،تاہم مجاہدین کے خوف سے انہیں طیاروں کے ذریعے منتقل کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق مقبوضہ وادی میں بھجوائے جانے والے اہلکاروں میں 45 کمپنیاں سی آر پی ایف، 35 بارڈر سیکورٹی فورس جب کہ سشستر سیما بل اور انڈو تبت بارڈر پولس کی دس دس کمپنیاں شامل ہیں۔ حکام نے ’اتنی بڑی تعیناتی کا جواز‘ نہیں دیا۔ بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کو 14 برس بعد اتنی بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے۔ 2005 میں بی ایس ایف کو کشمیر سے نکال کر گارڈ ڈیوٹی سی آر پی ایف کو دے دی گئی تھی۔مقبوضہ وادی بالخصوص کنٹرول لائن سے ملحقہ علاقوں میں جنگی طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی پرواز کر رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ راشن کی ہنگامی فروخت بھی شروع کردی گئی ۔ سرینگر اور دیگر علاقوں میں دکانوں اور پٹرول پمپس پر لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور لوگ ضروری اشیا کی خریداری میں مصروف رہے۔ اس کے علاوہ سرینگر میڈیکل کالج کے اسٹاف کی سرما کی تعطیلات مسنوخ کردی گئی ہیں اور عملے کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی دوران کٹھ پتلی انتظامیہ نے علیحدگی پسند و مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کیخلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کرتے ہوئے یاسین ملک اور امیر جماعت اسلامی عبدالحامد فیاض سمیت سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ اچانک اٹھائے جانے والے ان اقدامات سے خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ وادی میں افواہیں گردش کررہی ہیں کہ بھارتی حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی اہمیت دینے والی دفعہ 35 اے کو منسوخ یا علیحدگی پسند رہنماؤں کو وادی سے باہر منتقل کرسکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستانی حکومت کی جانب سے بھارتی دباؤ میں آتے ہوئے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کیخلاف اقدامات نے مودی سرکار کو شہہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے ہفتہ کے روز مزید بڑھکیں ماریں اور کہا کہ ہم علیحدگی پسندوں کو سبق سکا دیں گے۔ پاکستان سے بھی حساب برابر کریں گے ۔بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کوئی تفریح نہیں ۔ اس لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔مقبوضہ وادی کی تازہ صورتحال اور گرفتاریوں پر بھارت نواز کشمیری رہنما ؤں نے بھی مذمت کا اظہار کیا ہے۔ ادھر بھارت کے جنگی جنون اورصورتحال کشیدہ ہونے پراسلام آباد نے بھی فوجیں مغربی سرحد سے مشرقی سرحد پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سفارتی حکام کے مطابق بھارت کے ساتھ موجود ہ حالات میں خطرات موجود ہیں۔ خوف کی فضا نہیں چاہتے،جنگ مسلط ہوئی تو بھرپور جواب دینے کیلئے تیار ہیں، موجودہ حالات میں کرتارپور جیسے اقدامات کو خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک سے رابطے جاری ہیں،دوست ممالک کی اخلاقی اور سیاسی حمایت درکار ہے، دوست ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت سے گزشتہ سرجیکل اسٹرائیک کے بھی شواہد مانگے تھے آج تک نہیں ملے، بھارت کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیاجانا چاہئے، بھارت اگر عالمی سرحد پر کوئی کارروائی کرے گا تو بھرپور جواب پائے گا۔دہلی سرکار کی کارروائیوں پر بھارت نوازمحبوبہ مفتی اور سجاد لون نے بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کئے ہیں۔سابق کٹھ پتلی وزیر اعلی محبوبہ مفتی، پیپلز کانفرنس کے چیئر مین اورسابق وزیر سجاد غنی لون کا کہنا تھا کہ ریاستی انتظامیہ کے اقدامات جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں اور اس سے حالات مزید ابتر ہوں گے۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں سمجھ سے بالاتر ہیں، کسی شخص کو جیل میں ڈال سکتے ہو لیکن اس کے نظریات کو قید نہیں کرسکتے۔ذرائع نے بتایا کہ ریاستی پولس نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کے دوران جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو مائسمہ میں گھر سے گرفتار کرکے پولس تھانہ کوٹھی باغ میں قید کردیا۔ وادی بھر میں تابڑ توڑ چھاپوں میں جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر عبدالحامد فیاض، مرکزی ترجمان ایڈووکیٹ زاہد علی سمیت 150 سے زائد مرکزی اور ضلعی سطح کے رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔ گرفتارشدگان میں سابق سیکریٹری جنرل غلام قادر لون، امیر ضلع اسلام آباد (اننت ناگ) عبدالرؤف، امیر تحصیل پہلگام مدثر احمد، دیگر رہنما عبدالسلام، بختاور احمد، محمد حیات، بلال احمد اور غلام محمد ڈار شامل ہیں۔ سرینگر کے علاقے میسومہ میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کے گھر پر چھاپا مار کر انہیں حراست میں لے لیا اور کوٹھی باغ کے تھانے میں بند کردیا ہے۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے کشمیر کی کشیدہ صورتحال مزید خراب کرنے کی سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کے کیس کی سماعت کے موقع پرکشیدگی پیدا کرنے کے پیچھے یقینا ًکوئی منصوبہ ہے، تاہم جموں و کشمیر کے عوام آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے یا اس میں ترمیم کا کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ مودی حکومت کے ایما پر متعدد ہندو انتہا پسندوں نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35 اے کو چیلنج کیا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بساکر آبادی کا تناسب تبدیل کیا جاسکے۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت بھارت میں کشمیری عوام کو خصوصی مراعات حاصل ہیں اور غیر کشمیریوں کے وادی میں جائیداد خریدنے پر پابندی ہے۔ادھر سرینگر میں مقامی شہریوں نے بتایا کہ انہوں نے معمول کے برخلاف رات بھر فضائی ٹریفک چلنے کی آوازیں سنیں۔ رات بھر فضائی ٹریفک چلنے کی وجہ سے شہر کے بیشتر علاقوں میں لوگ خوف و ہراس کا ماحول رہا ۔یاسین ملک اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاری کیخلاف ہفتہ کو مقبوضہ وادی میں زندگی مفلوج رہی۔ سرینگر کے بیشترعلاقوں میں بھی ہڑتال کا سماں تھا۔ تجارتی مرکز لال چوک میں واقع گھنٹہ گھر پر شرومنی اکالی دل کے کارکنوں نے ترنگا لہرانے کی کوشش کی، جسے کٹھ پتلی انتظامیہ نے ناکام بنادیا۔حریت کانفرنس کے رہنماؤں ، سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق و دیگر یاسین ملک اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔مودی کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں پر بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کوئی تفریح نہیں ،اس لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ 1971 کے بعد سے کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی گئی اور کارگل ایک محدود آپریشن تھا جو پہاڑی علاقوں میں ہوا اور خوش قسمتی سے زیادہ شہری متاثر نہیں ہوئے۔لیکن اگر لاہور پر بم گرایا گیا یا امرتسر پر بمباری کی گئی یا پھر مظفرآباد پر بم حملہ ہوا تو کیا ہم اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں؟ کیوں کہ آج کل کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں اور یہ 1971 والے نہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد بھی جنگ کے بادل چھا گئے تھے اور شاید صورتحال زیادہ سنگین تھی لیکن اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا۔چنانچہ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اپنے آپشنز پر غور کرنے کی اور اعلیٰ حکام کو جنگ کے نتائج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ادھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ امریکہ اس کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے پلوامہ واقعے کی مذمت کی۔امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور ہم اسے روکنا چاہیں گے۔ڈونلڈٹرمپ کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس سے اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان کافی مسائل ہیں اور جب سے پلوامہ حملے میں 41 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اس کے بعد دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔امریکی صدر نے مزید کہا کہ بھارت کسی سخت ردعمل پر غور کررہا ہے کیونکہ اسے پلوامہ حملے میں تقریباً 50 افراد کا جانی نقصان ہوا جسے ہم سمجھ سکتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاکہ امریکہ خطے میں کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔پاک امریکہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان سے تعلقات انتہائی کم وقت میں بہت زیادہ بہتر ہوئے ہیں اور پاکستانی قیادت سے جلد ملاقات متوقع ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More