تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

عبد الرحمٰن نے سیدنا ابو حازمؒ سے پوچھا: ’’کان کی نعمت کا شکر کیا ہے؟‘‘
فرمایا: ’’اپنے کان سے کوئی بھلائی کی بات سنو تو اسے یاد رکھو اور اگر بری بات سنو تو اسے بھلا دو۔‘‘
عبدالرحمٰن نے پوچھا: ’’ہاتھوں کی نعمت کا شکر کیا ہے؟‘‘
فرمایا: ’’ہاتھوں سے وہ چیز نہ پکڑو، جو تمہاری ہیں اور نہ ہی ان کے ذریعے کسی کا حق مارو۔‘‘
پھر فرمایا کہ ’’عبد الرحمن! میری یہ بات یاد رکھو، جو صرف زبان سے شکر اداکرتا ہے، اس کے ساتھ اپنے دل اور جسمانی اعضاء کو شریک نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو (سردی کا) لباس پکڑ کر کھڑا رہے اور اسے پہنے نہیں، تو بلاشبہ یہ لباس بٖٖغیر پہنے اسے سردی سے بچا نہیں سکتا۔‘‘
اہل علم کا اہل دنیا کے پاس نہ جانا
ایک مرتبہ حضرت ابو حازم سلمہ بن دینارؒ خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا بھر پور جذبہ دل میں لئے ہوئے، سر زمین روم کی طرف جانے والی جماعت کے ساتھ چلے، جب یہ جماعت سفر کی آخری منزل پر پہنچی تو دشمن سے مقابلے ہونے سے پہلے، کچھ دیر سستانے اور آرام کرنے کے لئے ایک جگہ قیام کیا۔
جماعت کے امیر بنوامیہ میں سے تھے، انہوں نے حضرت ابو حازمؒ کو بلانے کے لئے ایک قاصد بھیجا۔
اس نے آکر پیٖغام دیا کہ امیر جماعت آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ ان سے اہم مسائل پر گفتگو کریں۔ آپ نے امیر جماعت کو تحریری جواب دیا اور لکھا:
’’اے امیر! میں نے بہت سارے اہل علم کی صحبت پائی، لیکن اہل علم کو دنیا کی طرف اپنا دین اور علم اٹھا کر لے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس بدعت کو جاری کرنے والا پہلا بد نصیب کہلاؤں۔ اگر آپ کو علم دین کی ضرورت ہے تو مجھے بلانے کے بجائے خود چل کر میرے پاس تشریف لائیے۔ تو اس علم میں سے آپ حصہ پا سکیں گے۔
جب امیر نے جماعت نے خط پڑھا تو خود چل کر ان کے پاس آئے سلام کیا اور بلند درجات کی دعا دی اور کہا: ابو حازم! آپ نے جو ہماری طرف خط لکھ کر بھیجا تھا، اس کو پڑھ کر بہت خوشی ہوئی، اس خط سے ہمارے دلوں میں آپ کی عزت اور آپ کا مقام مزید بلند ہو، خدا آپ کا بھلا کرے، آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، ہمیں وعظ ونصیحت کیجئے۔
آپؒ نے جی بھر کر انہیں وعظ ونصیحت سے نوازا۔
نصائح میں ایک یہ بھی تھا: ’’دیکھو آخرت میں جس چیز کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہو، دنیا میں حریص بن کر اس کے حصول کے لئے خوب کوشش کرتے رہو۔ اور جس چیز سے آخرت میں بچنا چاہتے ہو تو دنیا میں اس سے بچنا شروع کردو، امیر اس بات کو خوب اچھی طرح جان لو اگر آپ پر باطل (جھوٹ) اور نا حق غالب آگیا، تو جھوٹے اور منافق لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو جائیں گے اور اگر نا حق و صداقت آپ کے ہاں ناپسندیدہ ہو تو نیک دل اور اہل خیر آپ کے ارد گرد جمع ہوں گے اور وہ سچے دل سے آپ کے معاون بنیں گے۔ اب آپ کو جو پسند ہو، وہ اختیار کر لیجئے۔‘‘
وفات
جب حضرت ابو حازم سلمہ بن دینارؒ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو یہ آیت کریمہ تلاوت کی:
ترجمہ: ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے خدا تعالیٰ ان کے لئے محبت پیدا کردے گا۔‘‘
یہ آیت بار بار پڑھتے رہے، یہاں تک کہ روح جسم مبارک سے پرواز کرگئی۔
ایک بات تجربہ کی یہ معلوم ہوئی کہ جب بھی دل میں کوئی غم ہو پریشانی ہو، فکر ہو تو فوراً اپنے کسی بڑے کو بتا دینی چاہئے۔ دل ہی دل میں نہیں رکھنی چاہئے۔
نبی اکرمؐ جب غار حرا سے پریشان واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ نے تسلی دی۔ دل ہی دل میں غم رکھنے سے اور سوچنے سے مزید بڑھتا ہے، لہٰذا غم کی بات، کوئی فکر یا خوف و پریشانی ہو تو ضرور کسی سمجھ دار، تجربہ کار، امانت دار شخص کو بتا دینا چاہئے۔ جس طرح خلیفہ سلیمان بن عبد المالک نے اپنا غم ابو حازمؒ کو بتلا دیا، اس سے غم ہلکا ہو جاتا ہے۔
ابوحازمؒ کی ایک مختصر وصیت یہ تھی کہ گناہوں سے بچنا چاہئے اور گناہوں سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم صبح و شام ذکر کا اہتمام کریں۔ جو روزانہ پابندی سے ذکر کرے گا، تلاوت کا اہتمام کرے گا اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کرے گا، اس کو خود گناہوں سے ایسی نفرت ہو جائے گی کہ گناہوں میں بدبو محسوس ہوگی، گناہ سے بھاگے گا۔ چاند کی پہلی تاریخ سے پہلا پارہ شروع کرے اور روزانہ کم از کم ایک پارہ تلاوت کا تو اہتمام کرے۔
حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
خدا تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو، اس سے ہمارا ہی فائدہ ہے، اس لئے کہ دنیا میں جتنے جرائم، بدعنوانیاں اور بد اخلاقیاں برائیاں ہوتی ہیں اگر ان سب برائیوں کی جڑ دیکھی جائے تو وہ خدا سے غفلت ہی ہے۔
چور جس وقت چوری کر رہا ہے، اس وقت خدا کی یاد سے غافل ہے، اگر خدا کی یاد سے غافل نہ ہوتا تو چوری کا ارتکاب نہ کرتا، بدکار جس وقت بدکاری کر رہا ہے، اس وقت وہ خداکی یاد سے غافل ہے، اگر خدا کی یاد سے غافل نہ ہوتا تو وہ بدکاری نہ کرتا، اسی بات کو حضوراقدسؐ نے فرمایا:
ترجمہ: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے، تو اس وقت وہ مؤمن نہیں ہوتا( مؤمن نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایمان اس وقت مستحضر نہیں ہوتا) جب چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مؤمن نہیں ہوتا،( یعنی اس وقت خد کی یاد دل میں ہوتی تو یہ گناہ کا ارتکاب نہ کرتا)۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان الخ:۱/۵۵)
لہٰذا ساری برائیاں، سارے مظالم، ساری بداخلاقیاں جو دنیا کے اندر پائی جارہی ہیں، ان کا بنیادی سبب خدا کے ذکر سے غفلت ہے۔(اصلاحی خطبات:۴ْْ/ ۱۳۶)
لہٰذا ہمیں بھی صبح شام خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے اور رب تعالیٰ کی بڑائی لوگوں کے درمیان بیان کرنی چاہئے تاکہ ہمارا یقین رب تعالیٰ کی ذات پر زیادہ سے زیادہ پختہ ہو، یہاں تک کہ رب تعالیٰ کی معرفت ہمارے دلوں میں جم جائے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More