بھارتی حملے کا جواب ایٹمی ہتھیار دیں گے

0

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) دارالحکومت کے اہم ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے کسی علاقے پر محدود حملہ بھی کیا تو اسے فل اسکیل اعلان جنگ سمجھا جائے گا اور پاکستان جوابی کارروائی میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول کوئی چھوٹا سا حملہ بھی اعلان جنگ تصور ہوگا اور اس سے نمٹنے کے لئے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کئے جائیں گے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں تمام متعلقہ اتھارٹیز کو ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ ذریعے کے بقول پاکستان نے ایٹمی ہتھیار شوکیس میں سجانے کے لئے نہیں رکھے ۔ ملک کے دفاع کے لئے بنائے ہیں۔ لہٰذا ان کے استعمال میں کسی مرحلے پر بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ معاملے کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے ذریعے نے کہا کہ بس اتنا بتایا جاسکتا ہے کہ بھارت کا ہر اہم شہر اور فوجی چھاؤنی پاکستان کے نشانے پر ہے۔ یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ میزائلوں کی پہلی باڑھ کن کن مقامات پر ماری جائے گی۔ ذریعے کے بقول پہلے مرحلے میں پاکستانی سرحد کے قریب واقع بھارتی فوجی چھاؤنیاں، ہوائی اڈے اور مواصلاتی مراکز نشانہ بنیں گے، جبکہ دوسرے مرحلے میں بھارت کے اسٹرٹیجک اثاثے، فوجی سازوسامان کے گودام، چھاؤنیاں، ہوائی اڈے اور نیول بیسز ہدف بن سکتے ہیں۔ تاہم ذریعے نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ ایٹمی ہتھیار کہاں کہاں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس محدود اور لامحدود تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ بھارت تو کیا کوئی بھی اس بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ ذریعے کے بقول پاکستان کے پاس ان ہتھیاروں کے لئے ہر طرح کے ڈیلیوری سسٹم بھی موجود ہیں۔ جو زمین، ہوا اور سمندر سے مارکرسکتے ہیں۔ ذریعے نے انکشاف کیا کہ جس دن کسی بھارتی فوجی نے پاکستانی سرحد کے اندر قدم رکھا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا کاوٴنٹ ڈاوٴن شروع ہوجائے گا۔ جنگی حکمت عملی کے تحت پاکستان نے اپنے بعض ایسے علاقوں کا تعین بھی کرلیا ہے ۔ جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں بھارتی فوجی دستوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے گا اور جونہی وہ پاکستانی حدود میں کسی مخصوص مقام تک پہنچیں گے۔ ایٹمی میزائل داغ دیئے جائیں گے۔ چونکہ یہ میزائل پاکستانی سرزمین پر پھٹیں گے۔ اس لئے کسی ملک کو اعتراض کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ یہ محدود تابکاری تباہی والے میزائل ہوں گے۔ البتہ جنگ کی شدت بڑھنے پر بھارت کے اندر ایسی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، جو بظاہر میدان جنگ سے دور ہیں، لیکن جنگ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ پاکستان کے پاس ایک سے زیادہ وار ہیڈز رکھنے والے میزائلوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ جو فائر ہونے کے بعد آٹھ سے دس مقامات کو بیک وقت نشانہ بناسکتے ہیں۔ پاکستانی میزائلوں میں سالڈ فیول استعمال کیا جاتا ہے، جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہے اور چند ہی ترقی یافتہ ملکوں کے پاس ہے۔ ذریعے کے بقول بس فیصلہ ہوچکا ہے۔ احکامات دے دیئے گئے ہیں اور میزائلوں پر سرخ ربن باندھے جاچکے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ مشرف دور میں امریکی اور اسرائیلی حملے کے خدشے کے پیش نظر پاکستان نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ٹکڑے مختلف شہروں اور مقامات پر محفوظ کردیئے تھے۔ اب ان کے لئے ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور گرین سگنل ملتے ہی ایٹمی پرزوں سے لدی گاڑیاں اور طیارے اپنے اپنے مخصوص مقامات کی طرف چل پڑیں گے۔ ان ٹکڑوں کو ایک سے زائد زمین دوز اڈوں پر جوڑ کر فائرنگ کے لئے تیار کردیا جائے گا۔ پرزے جمع ہونے کے بعد اس کام میں بمشکل چند گھنٹے لگیں گے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بھارت کی بکواس سے تنگ آگیا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو اسے سبق سکھانا ضروری ہوگا۔ ذریعے کے بقول اتنا انقلابی فیصلہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود کش حملے میں پاکستان بالکل بے قصور ہے۔ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اسے تو اس حملے کی ٹائمنگ سے نقصان ہی ہوا ہے۔ لیکن بھارت یہ بات ماننے پر تیار نہیں، جبکہ اس کے پاس الزام کے حق میں کوئی ثبوت بھی نہیں۔ ذریعے کے بقول پاکستانی اعلیٰ حکام نے حملے کے فوراً بعد اپنے ماتحت اداروں سے تفصیلی رپورٹ طلب کی تھیں اور سوال کیا تھا کہ کیا کسی بھی سطح پر کوئی ادارہ یا اس کا کوئی افسر انفرادی یا اجتماعی طور پر اس کام میں ملوث ہے؟۔ یا اس نے کوئی سہولت بہم پہنچائی ہے؟۔ ذریعے کے بقول تمام متعلقہ اداروں نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور واضح الفاظ میں رپورٹ دی کہ اس واقعے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ذریعے کے بقول اعلیٰ حکام نے وارننگ دی تھی کہ اگر رپورٹ غلط ہوئی تو ذمہ داران کے خلاف ایسی کارروائی ہوگی کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے، لیکن تمام ماتحت ادارے اپنی رپورٹوں پر قائم رہے۔ اس پر اعلیٰ قیادت نے اسٹینڈ لینے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ پاکستان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ ذریعے کے بقول بھارت کو یہ بات بعض بالواسطہ ذرائع سے پہنچائی بھی گئی ہے کہ اگر اس کے پاس کسی افسر یا ادارے کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے تو وہ پاکستان کو فراہم کرے۔ ذمہ دار قصور وار نکلا تو اسے عبرت کا نشانہ بنادیا جائے گا، لیکن ذریعے کے مطابق بھارت نے کوئی ثبوت نہیں بھیجا اور ثبوت دینا تو درکنار اس نے اس موضوع پر بات کرنے سے بھی انکار کردیا۔ بھارت کے اس رویے پر پاکستانی قیادت بھی پورے قد سے کھڑی ہوگئی اور سخت لب و لہجہ اختیار کرلیا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی اب اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے۔ اس کے رابطے تمام بھارت میں سرگرم علیحدگی پسند تحریکوں سے ہوگئے ہیں۔ ہتھیار بارود اور روپیہ اسے بھارت کے اندر سے ہی مل رہا ہے۔ بھارتی انتظامیہ میں اس کے حامی اور ہمدرد افسروں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ یہ صرف مسلمان ہی نہیں۔ ہندو، سکھ اور عیسائی بھی ہیں۔ اس تحریک کو اب کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ ہاں بین الاقوامی سطح پر اسے سیاسی اور سفارتی مدد کی ضرورت ہے، جو پاکستان مہیا کر رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کا کوئی کردار نہیں۔ ذریعے کے بقول اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھا لیا ہے۔ وہ کئی ملکوں کے حکمراں خاندانوں کی حکومتوں کے تحفظ کے لئے فوج فراہم کر رہا ہے، جس سے عربوں پر اثر ورسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے محفوظ اور باعزت انخلا چاہتا ہے اور یہ کام پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ اور مغربی ممالک کسی صورت اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اسی طرح چین اور روس بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان دونوں کو داعش کا خطرہ ہے، جس کا سدباب افغان طالبان کرسکتے ہیں اور وہ پاکستان کے حامی ہیں۔ یوں تو چین پاکستان کا پرانا دوست ہے، لیکن روس جو روایتی طور پر بھارت کے کیمپ میں تھا۔ بھارت سے امریکہ کی قربت کے بعد اب اس سے دور ہوگیا ہے۔ لہٰذا بھارت کو اپنے فوجی اقدام کی حمایت میں روس کی مدد حاصل نہیں ہوگی۔ ذریعے کے بقول بھارتی افواج روسی فوجی سامان سے لیس ہیں۔ جنگ کی صورت میں انہیں ایسے فالتو پرزوں اور ضروری سامان کی ضرورت پڑے گی، جو بھارت نہیں بناتا۔ وہ سامان روس سے ہی مل سکتا ہے۔ لیکن پاکستان سے جنگ کی صورت میں بھارت کو اس سے محرومی کا صدمہ اٹھانا پڑسکتا ہے۔ ذریعے کے بقول اگلا ایک برس بھارت کے لئے سخت ہوگا۔ کیونکہ کشمیر کی تحریک آزادی نے طے کیا ہے کہ وہ اس برس کو فیصلہ کن سال بنائیں گے۔
٭٭٭٭٭
سیالکوٹ/اسلام آباد(امت نیوز) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ اپنی دھرتی کے دفاع سے بڑھ کر کوئی چیز مقدس نہیں پاک فوج مادر وطن کا دفاع کرنے کیلئے ہر دم تیار ہے۔ دوسری جانب ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان کا کہنا ہے کہ پاک فضائیہ قومی امنگوں کے عین مطابق دشمن کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھر پور قوت سے جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیالکوٹ کے قریب ورکنگ باؤنڈری کا دورہ کیا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آرمی چیف نے جوانوں کے بلند حوصلے اور تیاری کو سراہا۔ورکنگ باؤنڈری پر پاک فوج کے افسران اور جوانوں سے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ اپنی دھرتی کے دفاع سے بڑھ کر کوئی چیز مقدس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کی قیادت کرنے پر فخر ہے اور پاک فوج مادر وطن کے دفاع کیلئے ہر دم تیار ہے۔ دوسری جا نب پاکستان ایئرفورس کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان نے پاک فضائیہ کے فارورڈ آپریٹنگ بیسز کا دورہ کیا۔ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق فارورڈ آپریٹنگ بیسز پر تعینات پاک فضائیہ کے عملے سے گفتگو میں ایئر چیف کا کہنا تھا کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم ہر قیمت پر اپنی فضائی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاک فضائیہ دیگر مسلح افواج کے شانہ بشانہ اپنی آپریشنل تیاریوں اور مکمل ہم آہنگی کی وجہ سے ہر قسم کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاک فضائیہ قومی امنگوں کے عین مطابق دشمن کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھر پور قوت سے جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ترجمان نے بتایا کہ ایئر چیف نے فضائی اڈوں کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور عملے کے جذبے اور پیشہ وارانہ مہارت کو سراہا۔یاد رہے کہ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں غاصب بھارتی فوج پر کارخودکش حملے کے فوراً بعد بھارت نے بغیر کسی تحقیقات کے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آگئی ہے اور بھارتی میڈیا مسلسل جنگ کی باتیں کررہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More