آج کی گفتگو دو احادیث کے مضمون پر ہے۔ پہلی حدیث میں اس زمانے کی ایک افسوس ناک حالت کا بیان ہے اور دوسری حدیث میں اسی زمانے والوں کے لئے بڑی عجیب اور عظیم خوش خبری ہے۔ پہلی حدیث ایک طویل مضمون کا فقرہ ہے، اس میں آنحضرتؐ نے فرمایا:
’’پھر ایک زمانہ آئے گا کہ دین کو پکڑنا (یعنی مضبوطی سے اس پر قائم رہنا) ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنا۔‘‘ یہ اسی زمانے کا حال معلوم ہوتا ہے، جس میں ہم اور آپ جی رہے ہیں۔ دین پر قائم رہنے والوں کے لئے اسلامی اعمال پر عمل کرنا ایسا ہی دشوار اور صبر طلب ہے۔ دین کے بڑے شعبے طاعات و عبادات اور معاشرت و معاملات ہیں۔ بہت سے دین دار لوگ فرائض و سنن کا اہتمام تو کرتے ہیں، مگر معاشرت کے معاملے میں حد درجہ غفلت کا شکار ہیں۔ خدا کا شکر کہ عقائد میں اتنی خرابی نہیں ہے، جتنی شریعت کے اعمال میں ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں:
’’عقائد سے تو کوئی ہٹا نہیں سکتا، کیونکہ عقیدہ قلب کا فعل ہے، ہاں اعمال میں رکاوٹیں ہیں۔ خصوصاً معاملات میں کہ پچاس میں سے ایک بھی معاملات میں دین پر عمل کرنے والا مشکل سے نکلے گا اور معاملات میں اعمال کے مقابلے میں زیادہ رکاوٹیں اس لئے ہیں کہ عمل پھر بھی شخصِ واحد کا فعل ہے۔ آدمی اپنے اختیار سے تنہا عمل کر سکتا ہے، جبکہ معاملات ایسے اعمال ہیں، جن کا تعلق دوسرے سے ہوتا ہے۔ جب تک دونوں باہمت اور دین پر پکے نہ ہوں، معاملہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک شخص معاملے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو دوسرا پکا نہیں ہوتا۔ بس اس طرح ایک سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا متاثر ہو کر سب لوگ بلائے عام میں مبتلا ہو گئے۔‘‘ (مواعظِ اشرفیہ ج۔ ۲۔ص ۲۷۹)
اس کے بعد اپنے ہی زمانے کے چند واقعات لکھے ہیں۔ ایک ڈپٹی صاحب ہیں جو بہت دین دار ہیں۔ ان کا ایک لڑکا ہے، جسے ریل میں ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ گھر والوں سے تحقیق کر رہے تھے کہ اس کی عمر کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ اس کا پورا ٹکٹ لگے گا، آس پاس جو لوگ کھڑے تھے، وہ ان کا مذاق اڑا رہے تھے کہ دیکھو! اس بچے کا آدھا ٹکٹ بھی کھپ سکتا تھا، کوئی بھی نہ ٹوکتا، یہ خود ہی اپنا پیسہ پھینکتے ہیں۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں معاملات کے بارے میں اتنی غفلت ہو گئی کہ ادائے حقوق جو تمام عقلاء کے نزدیک بھی ضروری ہے اور شرعاً بھی۔ اس کو مذاق کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
ایک گریجویٹ کا واقعہ
’’ایک صاحب جو بی اے تھے (اس زمانے کے بی۔ اے آج کل کے ماسٹر سے بھی کئی درجہ زیادہ صلاحیت رکھتے تھے) وہ ریل میں سوار ہوئے، وقت کم تھا، جو سامان ساتھ تھا، اس کا وزن نہیں کرا سکے۔ جب اپنی منزل پر ریل سے اترے تو وہاں انہوں نے متعلقہ عملے سے کہا کہ میرا سامان زیادہ ہے، اسے تول لو۔ بابو نے سامان دیکھا اور کہا ٹھیک ہے لے جائو۔ انہوں نے کہا نہیں! میرا سامان زیادہ ہے، اسے تول کر جو پیسے بنتے ہیں، وہ لے لو۔
ان کی وضع قطع سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ انگریزی جانتے ہوں گے۔ اس لئے اسٹیشن ماسٹر اور بابو انگریزی میں بات کرنے لگے۔ ایک نے کہا: معلوم ہوتا ہے اس نے شراب پی رکھی ہے، اس کے نشے میں ہے۔ انہوں نے کہا: ’’جناب! میں نشے میں نہیں ہوں، میں نے شراب نہیں پی ہے، میں مسلمان ہوں، اسلام میں حق تلفی جائز نہیں، محصول لے لیجئے۔‘‘ بابو نے کہا: ’’جائو جی، ہمیں فرصت نہیں۔‘‘ اب انہیں فکر ہوئی کہ آخر میں کیا کروں، میں محصول دے رہا ہوں، مگر یہ نہیں لیتے۔ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ خدا سے ڈرنے والوں کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں۔ بس انہوں نے حساب کر کے جتنا محصول واجب تھا، اتنی رقم کا ٹکٹ لے کر پھاڑ دیا۔‘‘
اگرچہ یہ حق تلفی کا معاملہ بالکل واضح قسم کی برائی ہے، مگر اس کے عام ہو جانے سے اس کی برائی نظروں سے اٹھ گئی ہے، بلکہ عام رواج ہونے کی وجہ سے اس کی بھلائی ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے۔ حق تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
عظیم خوش خبری
جس طرح اس زمانے میں دین پر عمل ہاتھ میں چنگاری لینے کے مترادف ہے، اسی طرح اس زمانے میں عمل کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اس وقت عمل کا ثواب بھی زیادہ ہے۔
’’چنانچہ حضور اقدسؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسے وقت میں ایک عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کا ثواب ملے گا۔ صحابہؓ نے سوال کیا: کہ اُن میں سے پچاس کا یا ہم میں سے پچاس کا؟ جواب میں حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے پچاس کا۔‘‘ کتنی بڑی خوش خبری ہے۔ (حوالہ بالا۔ ص۔ ۲۸۲)
یہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ چہ نسبت خاک را با عالم پاک؟ کہاں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور کہاں ہم نکمے اور ناپاک؟ اگر یہ ارشاد رسول اقدسؐ کا نہ ہوتا تو اس پر یقین کرنا ہی مشکل ہوتا، لیکن حقیقت یہی ہے۔ حضرت تھانویؒ اس شبہے کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ان کا ایک ہی حصہ ہمارے پچاس سے کیفیت میں بڑھا ہوا ہے (ان کی ایک رکعت ہو سکتا ہے کہ ہماری سو رکعات سے بڑھ کر ہو، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہو، یقیناً زیادہ ہو)۔
ایک حدیث میں آنحضرتؐ نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کر دے گا تو صحابیؓ کے ایک مُدّ (تقریباً ایک سیر) یا اس کے نصف کے برابر بھی نہ ہوگا۔‘‘ ہمارے اعمال میں صرف صورت ہے، صحابہؓ کے اعمال میں روح بھری ہوئی تھی۔ ہمارے اعمال میں جو صورت ہے، وہ بھی اگر درست ہوتی تو قدر سے دیکھی جاتی، ہماری تو یہ نقل بھی ناقص اور نکمی ہے۔
ہماری نماز کا حال:
ہم اپنی نماز ہی کو دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ نہ اس میں روح ہے نہ صورت۔ ہماری نمازوں کو اگر بزرگ دیکھیں تو ان کو لوٹانے کا حکم دیں۔ قرآن کریم میں نماز کیلئے ’’اقیموا الصلوۃ‘‘ کے الفاظ بار بار آئے ہیں۔ ’’اقیموا‘‘ امر کا صیغہ ہے کہ نماز قائم کرو۔ ’’ادوا الصلوۃ‘‘ نہیں فرمایا: کہ نماز ادا کرو، بلکہ نماز کو قائم کرنے یعنی درست کر کے ادا کرنے کا حکم فرمایا اور درست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے سارے حقوق ادا کئے جائیں۔
(1) پہلے تو نماز کے بارے میں اپنا عقیدہ درست کرنا چاہئے کہ یہ ہمارے پروردگار کا حکم ہے، اسے ہر بالغ مرد و عورت پر فرض کیا گیا ہے۔ یہ اتنا ضروری ہے کہ اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھیں، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پڑھیں، یہ بھی نہ ہو تو اشارے سے پڑھیں، ایسے فرض سے غفلت کرنا سخت کبیرہ گناہ ہے اور بڑی محرومی ہے۔
(2) نماز کے جو اوقات ہیں، ان میں نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ بلا عذر وقت نکال دینا بڑے گناہ کا سبب ہے، بہت سے لوگ غیر ضروری کاموں میں وقت نکال دیتے ہیں یا مکروہ وقت میں پڑھتے ہیں، خاص طور پر عصر کی نماز سب کاموں سے نمٹ کر ایسے وقت پڑھتے ہیں، جب سورج ڈوبنے والا ہوتا ہے، یہ سخت نادانی ہے۔ حدیث میں اسے منافق کی نماز قرار دیا گیا ہے۔
(3) کچھ لوگ اوقات کا بھی خیال رکھتے ہیں، مگر جماعت سے نماز نہیں پڑھتے، جماعت سے نماز پڑھنے کے بے شمار فوائد ہیں، تھوڑی سی ہمت سے پوری زندگی منظم ہو جاتی ہے۔
(4) نماز کے ارکان میں یعنی قیام، رکوع، سجود، قعود اور قومے و جلسے میں اعتدال ہونا، بہت سے لوگ قیام کے بعد رکوع صحیح نہیں کرتے، بس ذرا سا جھک کر کھڑے ہو جاتے ہیں، بعض صورتوں میں یہ رکوع ہی نہیں ہوتا۔ رکوع نہ ہو گا تو نماز کیسے ہو گی؟ کچھ لوگ رکوع سے پورے کھڑے نہیں ہوتے، بس ذرا سا اٹھ کر سر کو ایک جھٹکا دے کر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس صورت میں واجب رہ جانے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی۔
(5) دیکھئے حسین آدمی وہ کہلائے گا جس کا چہرہ بھی ٹھیک ہو، آنکھیں بھی ٹھیک ہوں، ناک بھی مناسب ہو، ہاتھ پائوں اور قد بھی ٹھیک ہو، بہت لمبا یا پستہ قد نہ ہو۔ مثلاً کسی کا سارا جسم ٹھیک ہو، مگر ناک بہت لمبی ہو یا بہت موٹا یا بہت پتلا ہو، ایسے شخص کو کوئی بھی حسین نہیں کہے گا۔ مگر ہماری نماز کی صورت تو اس سے بھی زیادہ بھدی اور بد صورت ہو گی، اگر ہم نماز کا کوئی رکن چھوڑ دیں گے۔ فرض کیجئے! ایک شخص نے رکوع صحیح نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک جزء نماز کا غائب ہو گیا، پھر اس کی مثال تو ایسی ہو گی جیسے کسی کی ناک ہی نہ ہو، نکٹا ہو۔
میرے بھائیو اور بہنو! صحابہ کرامؓ کے پچاس آدمیوں کے برابر ثواب جب ہی ملے گا کہ ہم اپنی نماز کی صورت کو بھی درست کریں اور اس میں حتی المقدور روح بھی ڈالنے کی کوشش کریں، یعنی خدا کی طرف دھیان رکھیں۔
نماز اور شرک:
قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہے: نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے مت ہو۔ اس میں نماز ادا کرو اور مشرکین میں سے مت ہو میں بظاہر جوڑ نظر نہیں آتا۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا: مطلب تو یہ ہے کہ نماز چھوڑنا ایسا ہی کام ہے جیسا مشرک بننا، کیونکہ مشرک نماز نہیں پڑھتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز چھوڑنے والا مشرک ہے۔ اس میں حضرت تھانویؒ نے ایک نکتہ ارشاد فرمایا کہ مشرکین عرب حج کرتے تھے، مگر نماز نہ پڑھتے تھے۔ نماز پڑھنے والوں کو ستاتے تھے اور یہود و نصاریٰ نماز پڑھتے تھے، حج نہیں کرتے تھے۔ اس لئے حدیث میں حج نہ کرنے پر یہودی یا عیسائی ہو کر مرنے کی وعید آئی ہے۔ حق تعالیٰ ہمیں اس دور کی اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post