اہل علم کی ہم نشینی کے فوائد

0

فقیہ ا بواللیث سمرقندیؒ کہتے ہیں کہ جو شخص کسی عالم کے پاس بیٹھتاہے، مگر علمی باتوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، تب بھی سات فضیلتوں کا مستحق ہے:
1: طالبان علم کے جو فضائل ہیں، وہ اس کو بھی حاصل ہوتے ہیں۔
2: جتنی دیر عالم کے پاس رہے گا، گناہوں سے محفوظ رہے گا۔
3: جب طلبِ علم کے ارادے سے گھر سے نکلا تو اس پر رحمت نازل ہوئی۔
4: علمی حلقوں پر نازل ہونے والی رحمتوں میں اپنی ہم نشینی کی وجہ سے وہ بھی شرک ہوگا۔
5: جب تک عالم کی بات سنتا رہے گا، عابد مانا جائے گا۔
6: بات سننے کے بعد نہ سمجھنے پر جو درد اس کو ہوگا، وہ حق تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ بنے گا، اس لیے کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں شکستہ والوں کے پاس رہتا ہوں۔
7: وہ دیکھے گا کہ لوگ علماء کی عزت کرتے ہیں اور فاسقوں کو ذلیل سمجھتے ہیں، تو اس کا دل فسق وفجور سے ہٹ کر علم کی طرف مائل ہوگا۔ اسی وجہ سے حضور اقدسؐ نے صلحاء کی صحبت اختیار کرنے کو فرمایا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد1 صفحہ 263 بحوالہ انصاف فی حدود الاختلاف صفحہ 24-23)
’’اس روگ کا کیا کروں؟‘‘
ایک دفعہ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سخت بیمار ہوئے۔ علالت طول پکڑ گئی۔ فجر کے وقت یہ افواہ مشہور ہوئی کہ حضرت کا وصال ہوگیا۔ دارالعلوم دیوبندکے اساتذہ یہ سن کر آپ کے مکان کی طرف لپکے۔ وہاں معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی۔ البتہ تکلیف کی شدت تھی جو برقرار ہے۔ عیادت کیلئے یہ حضرات کمرے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ نماز کی چوکی پر بیٹھے سامنے تکیے پر رکھی ہوئی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہیں اور اندھیرے کی وجہ سے کتاب کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔ آنے والے حضرات نے یہ منظر دیکھا تو حیران ہوگئے کہ مرض کی یہ شدت اور مطالعہ میں یہ محنت!
شیخ الاسلام مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے ہمت کرکے عرض کیا: حضرت! یہ بات سمجھ میںنہیں آئی کہ اول تو وہ کون سی بحث رہ گئی ہے جو حضرت کے مطالعے میں نہ آچکی ہو اور اگر بالفرض کوئی بحث ایسی ہو تو اس کی فوری ضرورت کیا پیش آگئی ہے کہ اسے چند روز موخر نہیں کیا جاسکتا اور اگر بالفرض فوری ضرورت کا مسئلہ ہے تو ہم خدام کہاں مرگئے ہیں، آپ کسی بھی شخص کو حکم فرما دیتے وہ مسئلہ دیکھ کر عرض کردیتا، لیکن اس اندھیرے میں آپ جو محنت اٹھا رہے ہیں، وہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔
حضرت شاہ صاحبؒ کچھ دیر تو انتہائی معصومیت اور بیچارگی کے انداز میں مولانا شبیر احمدصاحبؒ کی طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا:
بھائی! ٹھیک کہتے ہو، لیکن یہ کتاب بھی تو ایک روگ ہے، اس روگ کا کیا کروں؟ (متاع وقت اور کاروان علم ص۲۴۸)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More