مندر کی تعمیر کیلئے چندہ دینا
سوال: ایک ہندو علاقے میں مسجد اور مدرسے کا قیام ہوا ہے، اب اسی جگہ سے تھوڑی دور مندر تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کی امداد کے لیے مدرسے اور مسلم عوام سے پیسہ مانگا جا رہا ہے۔ اگر ہم منع کردیں تو فساد کا اندیشہ ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: کسی مسلمان کے لیے مندر کی تعمیر کی غرض سے چندہ دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر نہ دینے میں واقعی فتنے کا اندیشہ ہو، تو دفع مضرت اور فتنے سے بچنے کی نیت سے (نہ کہ مندر کی تعمیر کی نیت سے) چندہ دینے کی گنجائش ہے۔ (فتویٰ :753-598/sd=6/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
حرام کھانا پہنچانے کی اجرت
سوال: کھانا لوگوں کے گھر پہنچانے کی کمائی یا تجربہ حاصل کرنے کے لئے کرنا کیسا ہے؟ جبکہ پکا اور کھا غیر مسلم رہے ہیں؟ کھانا حلال اور حرام دونوں قسم کا ہے؟
جواب: حلال کھانا، لوگوں کے گھر پہنچانے کا کام اور اس کی اجرت حلال ہے، چاہے پکانے والا غیر مسلم ہو اور حرام کھانا پہنچانے کا فعل اور اس کی کمائی ناجائز ہے۔ اگر منشا سوال کچھ اور ہو تو واضح فرما کر سوال کریں۔ (فتویٰ :709-640/M=6/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
ہدیہ لینے کا اصول
سوال: مجھے ایک ایم ایل اے نے ایک موبائل ہدیہ دیا ہے، جو ابھی دنیا میں نمبر وَن ہے۔ تو میں نے قبول کر لیا، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ وہ تو ایم ایل اے ہے اور انڈیا میں ایم ایل اے کی کمائی کے متعلق تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ یہی بات مجھے شبہ میں ڈالتی ہے، اگر وہ حرام کی انکم سے موبائل دیا ہے تو کیا یہ حرام کی ہے یا جائز یعنی میں استعمال کرسکتا ہوں یا نہیں؟
جواب: دوسرے کا ہدیہ لینے سے متعلق شرعی اصول یہ ہے کہ اگر اس کی غالب آمدنی حلال کی ہے تو لینا جائز ہے، اگر غالب حرام کی ہے تو جائز نہیں ہے۔ (فتویٰ : 1063-964/SN=12/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
مسجد میں بغیر میٹر کا اے سی
سوال: مسجدوں میں بنا میٹر کے اے سی (AC) لگانا کیسا ہے؟ آج کل مسجدوں میں اے سی لگانے کا فیشن ہو گیا ہے، ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر مسجدوں میں جو اے سی لگا ہے، وہ بنا میٹر کے چل رہا ہے۔ براہ کرم، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرما دیں۔
جواب: غیر قانونی اور چوری کی بجلی سے AC چلانا شرعاً جائز نہیں ہے، بڑا گناہ ہے، جن مسجدوں میں اب کیا جا رہا ہے ان کے ذمے داروں پر ضروری ہے کہ اس ناجائز عمل کا سلسلہ ختم کریں، اگر AC چلانا ہی ہو تو متعلقہ شعبہ سے باضابطہ میٹر لگواکر AC استعمال کریں، ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے، نیز نماز میں بھی کراہت آئے گی۔ (فتویٰ : 1018-803/SN=10/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
سوال: میں نے دس لاکھ ہیوی ڈپوزٹ پر گھر لیا ہے۔ جس کا 1147 روپیہ کرایہ ہے۔ یہاں پر زیادہ تر گھر ایک لاکھ ڈپوزٹ اور 8000 کرایہ پر دیئے جاتے ہیں، تو اس مسئلے کا شرعی حکم کیا ہے؟ اس ہیوی ڈپوزٹ کے سسٹم میں خیر ہے یا نہیں؟ اور اس ڈپوزٹ کے پیسوں پر زکوٰہ دینا ہے یا نہیں؟ میں تین لاکھ ہیوی ڈپوزٹ میں کمرہ لیکر پانچ سو روپئے کرایہ دیکر اسے کسی اور کو 30000 روپئے ڈپوزٹ لیکر اور 4000 روپئے کرایہ پر دے سکتا ہوں یا نہیں؟ اس مسئلہ پر ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: (1) دس لاکھ ڈپوزٹ دے کر صرف گیارہ سو سینتالیس روپئے مانانہ کرایہ پر گھر لینے کا جو معاملہ آپ نے کیا ہے، شرعاً یہ جائز نہیں ہے، یہ درحقیقت قرض دے کر انتفاع کی شکل ہے، جس کو حدیث میں ’’ربا‘‘ یعنی سود کہا گیا ہے، اس لئے یہ معاملہ ختم کردیں، آپ اپنا پیسہ واپس لے لیں اور مکان مالک کے حوالہ کردیں۔ اگر آپ کو واقعۃً مکان کی ضرورت ہے تو کرایہ داری کا جائز معاملہ کرکے مکان حاصل کریں۔
(2) یہ بھی درحقیقت سودی معاملہ یعنی قرض سے انتفاع کی شکل ہے، آپ یہ معاملہ مذکورہ بالا طریقے پر ختم کر دیں۔ (فتویٰ : 1119-1048/SN=1/1440، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post