حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی، آپؒ علم کے سرچشموں سے سیراب ہوئے، ان کی والدہ حضرت ام عاصمؒؒنے پہلے دن سے ہی ان کی تربیت تقویٰ کی بنیاد پر کی۔ سن شعور کو پہنچتے ہی خیر و شر کی تمیز کرنے کا سلیقہ سکھلایا اور ان کے دل میں حکمت و دانائی کا بیچ بویا۔ حصول علم کا شوق پیدا کیا، مدینہ منورہ کے علمی ماحول میں انہوں نے پرورش پائی۔ ان دنوں مدینہ منورہ علم کا مینارہ نورہ بنا ہوا تھا۔ علمائ، فقہائ، اتقیاء و اصفیاء کا مرکز تھا۔
ماں کی خصوصی توجہ اور دلچسپی کی بنا پر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بچپن میں ہی قرآن حکیم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔
قرآن کریم کی تاثیر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دل میں بچپن میں ہی بہت گہری تھی، قرآن کریم کی برکت سے ان کا دل خشیت الٰہی سے معمور ہو چکا تھا۔ جوں جوں ان کی عمر بڑھتی گئی توں توں خشیتِ الٰہی میں اضافہ ہوتا گیا، اکثر و بیشتر خشیتِ الٰہی کی بنا پر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے۔
حضرت ام عاصمؒؒ کو اپنے ننھے سے بچے کا رونا بڑا ہی عجیب و غریب محسوس ہوتا، اپنے بچے کو روتا دیکھ کر ان کے اپنے دل میں بھی خشیت الٰہی کے پوشیدہ جذبات جوش مار نے لگتے اور وہ خود بھی رو دیتیں۔ ابن عساکرؒ اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ایک روز بچپن میں رونے لگے۔ انہوں نے بچپن میں ہی قرآن حکیم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ اپنے بچے کو روتا دیکھ کران کی والدہ نے پوچھا: بیٹا آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے بڑے ہی معصومانہ انداز میں جواب دیا: اماں جان! مجھے موت کی یاد رلا رہی ہے۔ یہ بے ساختہ جواب سن کر ماں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے اور انہوں نے اپنے اس ہونہار پاکیزہ خیال بیٹے کو شفقت بھرے انداز میں اپنی گود میں لے لیا۔
حضرت ام عاصمؒ نے اپنے بیٹے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دل میں بچپن میں ہی تقویٰ کا بیچ بو دیا تھا، جو بڑی عمر میں تناور و خوش ذائقہ پھل دار درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ ان کے استاذ حضرت صالح بن کیسانؒ تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیزؒ کے دل میں بچپن سے ہی رب تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعتراف جس انداز میں پایا جاتا تھا، اس معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم پلہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
دراصل یہ خوبیاں ان کی والدہ حضرت ام عاصمؒ کی خصوصی تربیت اور نگہداشت کا ثمرہ تھیں۔ آپؒ اپنے بیٹے کی حتی المقدور نگہداشت کیا کرتی تھیں، لیکن ایک دفعہ ان سے قدرے کوتاہی ہو گئی، بیٹا گھوڑوں کے اصطبل میں جا پہنچا، ماں کو خبر ہی نہ ہوئی، گھوڑے نے دولتی ماری، جس سے بیٹے کی پیشانی زخمی ہو گئی۔ حضرت ام عاصمؒ نے انہیں ایک جانب سے دیکھا، جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور انہیں اٹھا کر اپنے سینے سے چپکا لیا اور ان کے چہرے سے خون صاف کرنے لگیں، اسی وقت بچے کے والد وہاں پہنچ گئے۔ حضرت ام عاصمؒ جذباتی انداز اپناتے ہوئے کہنے لگیں اگر صورت یونہی رہی تو آپ میرے بیٹے کو ضائع کر دیں گے۔ ابھی تک آپ نے اس کے لیے کسی خادم کا اہتمام کیا اور نہ ہی اس کی دیکھ بھال کے لیے کسی آیا کا انتظام کیا۔ بیوی کی باتیں سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی لہر پھیل گئی، دل میں کچھ سہانے سے خیالات گردش کرنے لگے، انہوں نے اپنی بیوی سے مسکراتے ہوئے کہا:
ام عاصمؒ تم تو بڑی ہی خوش نصیب ماں ہو۔ سنو! امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کو ایک رات خواب آیا۔ دیکھتے ہیں کہ بنو امیہ کا ایک چشم و چراغ زخمی ہو گیا ہے، آپؓ نیند سے بیدار ہوئے اور فرمانے لگے: بنو امیہ کا یہ زخمی کون ہے؟ وہ حضرت عمرؓ کی اولاد سے ہے، اس کا نام بھی عمر ہو گا، وہ حضرت عمرؓ کے نقش قدم پر چلے گا اور روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ تو وفات پا گئے، لیکن ان کا یہ خواب خاندان میں زیر بحث آتا رہا۔ خاندان کے افراد اپنے بیٹوں کے چہروں پر زخم کی علامت دیکھتے رہے، یہ زخم جب میرے بیٹے کی پیشانی پر آیا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو وہی زخم ہے، جو امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کو خواب میں دکھلایا گیا تھا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جنہیں بچپن میں پیشانی پر زخم آیا، انہوں نے واقعی مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہی درماندہ حال لوگوں میں خوشیاں بانٹنا شروع کیں، معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا کیا، مایوس چہرے مسکرانے لگے، کبیدہ خاطر انسان شاداں و فرحاں دکھائی دینے لگے، غربت و افلاس کی تاریکی چھٹ گئی، ہر سو خوشحالی کی روشنی پھیلی ہوئی نظر آنے لگی۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے قابل رشک کارناموں میں ان کی والدہ حضرت ام عاصمؒ کی تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔
حضرت ام عاصمؒ مدینہ منورہ سے مصر منتقل ہو گئیں، کیونکہ ان کے شوہر حضرت عبد العزیزؒ مصر کے گورنر تھے۔ حضرت ام عاصمؒ غرباء و مساکین کی بہت مدد کیا کرتی تھیں، ان کے ساتھ جود و کرم اور شفقت و ہمدردی سے پیش آتیں، مصر میں حضرت ام عاصمؒ ایک دیوانے شخص کے پاس سے گزریں، اس کی مالی مدد کی۔ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، اس کے بعد جب بھی اس شخص کے پاس سے حضرت ام عاصمؒ گزر ہوا، اس کے ہر دفعہ مالی تعاون کیا اور اسے حوصلہ دلایا۔ حضرت ام عاصمؒؒ کی وفات مصر میں اپنے خاوند عبد العزیز بن مروان کے گھر ہوئی۔
رب تعالیٰ حضرت ام عاصمؒ پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور ان کی قبر کو جنت کا پُر بہار باغیچہ بنا دے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post