سیدنا نعیمؓ کی حیرت آفریں داستان

0

نعیم بن مسعود اور ان کے دل کے مابین ہونے والی گفتگو کو اس دور اندیشانہ عزم نے منقطع کیا، جس کو روبہ عمل لانے کے لیے وہ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وہ رات کی تاریکی میں اپنے قبیلے کے کیمپ سے دبے پائوں نکلے اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضری کے لیے چل پڑے، جب آپؐ نے ان کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو فرمایا:
’’نعیم بن مسعود؟ اس وقت کس ضرورت سے آئے؟‘‘ آپؐ نے دریافت فرمایا۔
’’اس وقت اس لیے حاضر خدمت ہوا ہوں کہ اس بات کی گواہی دوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اس کے بندے اور رسول ہیں اور جو دین آپؐ لائے ہیں، وہ برحق ہے۔ ‘‘
سلسلہ کلام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’حضورؐ! میں اسلام قبول کر چکا ہوں، مگر میرے قبیلے کے لوگ ابھی اس بات سے بے خبر ہیں تو آپؐ مجھے جو حکم دینا چاہیں دیں، میں اس کی تعمیل کروں گا۔‘‘
’’ہاں! خدا نے چاہا تو آپ عنقریب ایسی بات دیکھیں گے، جس سے آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور آپؐ کا جی خوش ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
حضرت نعیمؓ رسول اکرمؐ کی خدمت سے روانہ ہو کر اسی وقت بنو قریظہ کے پاس پہنچے۔ وہ پہلے سے ان کے دوست اور ہم نشین تھے اور ان سے کہا:
’’بنو قریظہ! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تمہارا کتنا سچا دوست ہوں اور مخلص خیرخواہ ہوں۔‘‘
’’ہاں، تمہاری دوستی اور خیر خواہی ہر شبہے سے بالاتر ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
’’اس جنگ میں قریش اور غطفان کا معاملہ تمہارے معاملے سے سراسر مختلف ہے‘‘ حضرت نعیمؓ نے کہا۔
’’ وہ کیسے؟‘‘ بنو قریظہ نے پوچھا۔
’’وہ ایسے…‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ شہر تمہارا شہر ہے، تمہارے بال بچے اور تمہارے اموال اسی شہر میں ہیں۔ تمہارے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اسے چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائو۔ رہا قریش اور غطفان کا معاملہ تو ان کے اموال، ان کے بچے اور ان کی عورتیں دوسرے شہر میں ہیں، وہ یہاں محمدؐ سے جنگ کرنے آئے ہیں اور انہوں نے تم کو محمدؐ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے توڑ ڈالنے اور ان کے خلاف اپنی مدد کی دعوت دی، جس کو تم قبول کر چکے ہو۔ اب اگر وہ اس جنگ میں کامیاب ہوتے ہیں تو اسے غنیمت سمجھیں گے، لیکن اگر وہ محمدؐ کو مغلوب کرنے میں ناکام ہوئے تو تم کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اپنے علاقے کی طرف واپس چلے جائیں گے۔ پھر محمدؐ تم سے بدترین انتقام لیں گے اور تم خوب جانتے ہو کہ تنہا ان کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘
بنو قریظہ نے یہ سن کر کہا ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن اس معاملے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
’’میری رائے اس کے بارے میں یہ ہے کہ جب تک قریش اپنے اشراف اور سربرآوردہ لوگوں کی ایک معتدبہ تعداد بطور یرغمال تمہارے پاس نہیں رکھ دیتے، تم ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کرنے سے انکار کر دو۔ اس طرح تم ان کو اس بات پر مجبور کر سکو گے کہ وہ تمہارے ساتھ مل کر آخر دم تک محمدؐ سے جنگ کریں، پھر یا تو تمہیں غلبہ و کامرانی نصیب ہو جائے یا تمہارا اور ان کا آخری آدمی تک میدان جنگ میں کام آ جائے۔‘‘ حضرت نعیمؓ نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا مشورہ واقعی نہایت خیر خواہانہ ہے۔‘‘ بنو قریظہ نے کہا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More