حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ قدرت نے عجیب عجیب انداز سے میری دستگیری کی اور عبرت کے لئے عجیب عجیب مناظر دکھائے۔ ایک بار سفر حج کے دوران ریگستان سے گزر رہا تھا کہ اک شخص ببول کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نظر آیا۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک نوجوان تھا، جو حق کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا۔
’’لوگ آ رہے ہیں، جا رہے ہیں، مگر تم ایک ہی جگہ بیٹھے ہو۔‘‘ میں نے نوجوان سے دریافت کیا: ’’آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
نوجوان نے بڑی اداس نظروں سے میری طرف دیکھا اور کفِ افسوس ملتے ہوئے بولا ’’مجھ پر ایک کیفیت طاری تھی، مگر جب یہاں پہنچا تو وہ کیفیت ختم ہو گئی۔ میں اسی کی تلاش میں بیٹھا ہوں۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس نوجوان کی بات سنی اور اپنا سفر جاری رکھا۔
پھر جب میں ارکانِ حج ادا کرنے کے بعد واپس آیا تو اسی نوجوان کو دیکھا۔ وہ اس جگہ سے ہٹ کر تھورے فاصلے پر بیٹھا تھا، مگر اس بار اس کے چہرے پر افسردگی کے بجائے خوشی کے آثار نمایاں تھے۔
میں قریب پہنچا اور اس نوجوان سے مخاطب ہوا ’’اب یہاں کیوں بیٹھے ہو؟‘‘
’’مجھے میری کھوئی ہوئی چیز اسی جگہ ملی ہے۔‘‘ نوجوان نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’اسی لئے میں اس مقام پر پائوں توڑ کر بیٹھ گیا ہوں۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ اچھی تھی۔ کھوئی چیز کی تلاش میں بیٹھنا یا اس جگہ بیٹھے رہنا جہاں گوہر مراد ہاتھ آیا ہو۔‘‘
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ کو غیب سے قدم قدم پر ہدایت دی جاتی تھی اور عجیب عجیب انداز سے معرفت کے رموز و نکات سمجھائے جاتے تھے۔
حضرت جنید بغدادیؒ اپنی زندگی کا ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ ایک دن میرا گزر کوفے کی طرف ہوا، وہاں میں نے ایک عالیشان مکان دیکھا جو کسی بڑے رئیس کی ملکیت معلوم ہوتا تھا۔ مکان کے چاروں طرف بڑی چہل پہل نظر آرہی تھی، قدم قدم پر دولت کے کرشمے نمایاں تھے۔ اس مکان کے کئی دروازے تھے اورہر دروازے پر نوکروں اور غلاموں کا ہجوم نظر آرہا تھا۔ ابھی میں دل ہی دل میں ان لوگوں کی بدقسمتی اور بے خبری پر افسوس کررہا تھا کہ اچانک ایک خوش گلو عورت کی آواز سنائی دی، میں نے غور سے سنا، وہ عورت نہایت دلکش آواز میں یہ اشعار گارہی تھی۔
’’ اے مکان! تیری چار دیواری کے اندر کبھی کوئی غم نہ آئے۔‘‘
’’ اور تیرے رہنے والوں کے ساتھ یہ ظالم زمانہ کبھی مذاق نہ کرے۔‘‘( جیسے کہ اس کی عادت ہے کہ وہ بڑے محلات کو آن کی آن میں ویران کر دیتا ہے۔)
’’ جب کوئی مہمان بے گھر ہو تو ایسے مہمان کیلئے تو کیسا اچھا گھر ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے عورت کے اشعار سنے تو یہ فرماتے ہوئے آگے تشریف لے گئے۔’’ ان لوگوں کی حالت بہت نازک اور سنگین ہے، یہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں مکمل طور پر غرق ہوچکے ہیں۔‘‘
پھر ایک مدت کے بعد اتفاق سے حضرت جنید بغدادیؒ کا گزر اسی محل نما مکان کی طرف سے ہوا۔ آپؒ نے حیران ہو کر اس عشرت کدے پر نظر ڈالی، کوئی نوکر اور غلام وہاں موجود نہیں تھا۔ درودیوار انتہائی خستہ ہوچکے تھے اور جگہ جگہ سے اینٹیں گر رہی تھیں۔ ریشمی پردے دھجیوں میں تبدیل ہو کر پیوند خاک ہوچکے تھے، دروازے تباہ ہوگئے تھے۔ اب نہ صاحب جائیداد تھا، نہ دربان۔ فانوسوں اور قمقموں کی جگہ چمگادڑوں نے اپنے مسکن بنا لئے تھے، جن کمروں میں شہر کے بڑے بڑے امراء جمع ہو کر داد وعیش دیا کرتے تھے، اب وہاں آوارہ کتوں نے ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ ہر طرف ذلت و نحوست برس رہی تھی اور ہاتف غیب یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔
’’ اس کی ساری خوبیاں جاتی رہیں اور رنج والم نمایاں ہوگئے۔ زمانے کا یہی مزاج ہے کہ وہ ایسے مکان کو صحیح و سالم نہیں چھوڑے گا۔‘‘ لہٰذا مکان کے اندر جو انس(محبت) پایا جاتا تھا، اسے وحشت میں بدل دیاگیا اورکیف وسرور کی جگہ شور ماتم برپا ہوگیا۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post