تثلیث سے توحیدتک

0

اسلام کیلئے بے پناہ قربیاں دینے والی جمیلہ کرار (JAMILA QARAR) کا مسلمانوں کے بارے میں کہنا ہے کہ … اگر مسلمان عزم کرلیں تو رب کی تائید و نصرت سے یہ دنیا میں ایسا انقلاب برپا کر سکتے ہیں، جس میں انسان، انسان کی اور ظلم پر استوار مختلف تباہ کن نظموں کی غلامی سے نہ صرف مستقل آزادی حاصل کرسکے، بلکہ اس کی صحت مند ذہنی صلاحیتیں اس انداز میں نشو ونما پائیں گی کہ تعمیر و ترقی اور سچی مسرت و خوشحالی کا ایک منفرد و جانفزا دور شروع ہو جائے گا۔
لیکن میں معذرت کے ساتھ یہ عرض کروں گی کہ محض زبانی جمع خرچ سے صورت حال میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حساس اور باشعور تعلیم یافتہ مسلمان کامل اخلاص کے ساتھ سلام کی روح اور بنیادی اصولوں کے عین مطابق اس طرح کی تعمیری تحقیق کریں، جس سے اسلام کا چہرہ نکھر کر سامنے آجائے اور اس کی ہمہ جہت قوتوں کا بھی انکشاف ہوجائے… اس سے ذہنی اور فکری اعتبار سے ان انتشار زدہ مسلمانوں کو بھی عملی سہارا ملے گا، جو اجنبی نظریات کی طرف لڑھکتے نظر آتے ہیں اور ان غیر مسلموں کو بھی روشنی مل جائے گی، جو مروجہ نظریات سے تھک ہار کر زندگی کی نئی مفید اور صحت مند منزلوں کی تلاش میں ہیں اور اسلام کی صورت میں انہیں یقین ہوجائے کہ بے یقینی کے بھنور میں گرفتار نوع انسان کے لیے یہ مذہب امید کا پیٖغام جانفز ابن جائے گا۔
متذکرہ مقاصد کے حوالے سے خصوصاً ان معاشروں کے لیے جہاں مسلمانوں اقلیت میں ہیں بلکہ روایتی مسلمانوں کے ماحول میں بھی صاحب شعور مسلمانوں کا ذاتی رویہ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر مسلمان اپنے آپ کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈال لیں اور اخلاص کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی میں اسلامی تعلیمات کو اختیار کرلیں اور اس عمل و کردار کے نتیجے میں وہ قدرتی طور پر لازماً جس روحانی سکون اور گھریلو سطح پر جس مسرت و اطمینان سے آشنا ہوں گے، اس سے گردوپیش کا ماحول متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا اور اس طرح اسلام کا تعارف بہترین صورت میں دو سروں تک منتقل ہوگا اور لوگ خود پیش قدمی کر کے اسلام کی طرف توجہ دینے پر مجبور ہوں گے۔
اس ضمن میں ہمیں قرآن پاک کی اس ہدایت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘( آل عمران آیت 110)
اس سلسلے میں اگر ہم قرآن مجید کو غور سے پڑھیں گے اور رسول اقدسؐ کے فرمودات کو پیش نظر رکھیں گے تو مسلمان کی حیثیت سے اپنے سماجی و تمدنی فرائض کو احسن طریقے سے انجام دینا ہمارے لیے آسان تر ہو جائے گا۔ اسی حوالے سے رسول اقدسؐ کے جلیل القدر ساتھیوںؓ کی زندگیوں اور ان کے شاندار و حیرت انگیز کارناموں کا مطالعہ بھی ہمارے لیے مینارئہ نور ثابت ہوگا… اور اس بات کا میں پھر اعادہ کروں گی کہ اس سلسلے میں اہم ترین امر یہ ہے کہ ہمارے اپنے اندر یہ مضبوط ترین داعیہ ہونا چاہئے کہ ہمیں قرآن و سنت کی حکمت آموز نصیحتوں اور رسول اقدسؐ اور ان کے بے مثل ساتھیوںؓ کے روح پرور اور ایمان افروز واقعات کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ یعنی ہماری روز مرہ زندگی حصول علم کی تگ و دو، ذریعہ معاش کے لیے کوشش… غرض ہر شعبے میں ہمیں خدا کی رضا کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور ذاتی پسندو ناپسند پر دینی تعلیمات کو ترجیح دینا ہوگا۔
اگر ہم نے مسلمان کی حیثیت سے زندگی کا واقعی یہ انداز اختیار کرلیا تو ہم قرآن پاک کی ان خوشخبریوں کا مصداق بن جائیں گے جو اس طرح بیان کی گئی ہیں، جو لوگ ہمارے مقاصد اور رضا کی خاطر جدوجہد کریں گے ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور یقیناً خدا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (العنکبوت آیت 69) اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ (النجم آیت 39)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More