سرفروش

0

عباس ثاقب
اتنے بڑے شہر کے بس اڈے کی حاجت گاہ کی حالت بہت خراب نکلی۔ در حقیقت وہ ٹین کی چادروں سے بنے آٹھ دس کھوکھوں کا مجموعہ تھی۔ زیادہ تر کھوکھوں کے دروازے ڈھیلے ہوکر جھول رہے تھے اور اگر چٹخنیوں میں کوئی کیل یا ٹہنی نہ پھنسائی جاتی تو وہ کسی بھی وقت کھل کر عام نظارہ پیش کر سکتے تھے۔
گوسوامی اس بد انتظامی پر اڈے کی انتظامیہ کو کوس رہا تھا۔ میں ایک حاجت خانے میں داخل ہوا۔ عین اسی وقت میں نے ملحق کھوکھے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ کوئی باہر نکلا اور اس کی جگہ نیا بندہ آگیا۔ بڑبڑاہٹ نے بتایا کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ گوسوامی یہاں بھی میرا پڑوسی ہے۔ میرا دل چاہا کہ اسے کم از کم یہاں تو زبان بند کرنے کو کہوں۔ لیکن میں خاموش رہا۔
فارغ ہونے اور پانی کا لوٹا بہانے کے بعد میں لباس سنبھال ہی رہا تھا کہ میں نے گوسوامی والے حاجت خانے سے دھماکے کی سی آواز سنی۔ کوئی ٹھوس اور بھاری دھاتی چیز ٹین کی دیوار سے ٹکرائی تھی۔ گوسوامی نے ایک گندی سی گالی بکی لیکن میرے ذہن میں پٹاخے سے پھوٹ رہے تھے۔ میرا شک درست نکلا۔ یہ شخص استاد کے بھیس میں دراصل خفیہ پولیس کا اہلکار ہی ہے۔ یہ دھماکا ریوالور یا پستول کے دھاتی دیوار سے ٹکرانے کا ہی ہو سکتا ہے۔
میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ جالندھر کے اس بس اڈے سے فرار کی کوشش تو ضرور ناکام ہوگئی۔ لیکن اس شخص کا پول بھی کھل گیا۔ اب میں اس سے زیادہ بہتر انداز میں نمٹ سکوں گا۔
گوسوامی شاید کان لگاکر سن رہا تھا۔ میرے دروازہ کھول کر باہر نکلنے کے لگ بھگ فوراً بعد وہ بھی باہر آگیا۔ ہاتھ دھوکر ہم دونوں واپس اسی کینٹین پر پہنچ گئے اور گوسوامی نے دوبارہ چائے کا آرڈر دے دیا۔ وہاں سے ہماری بس صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لہٰذا اس کے نکلنے کی کوئی فکر نہیں تھی۔ گوسوامی ٹوائلٹس کی ابتر حالت پر کچھ کڑوے تبصرے کرنے کے بعد ایک بار پھر ہلکی پھلکی باتوں کی طرف لوٹ آیا تھا۔ وہ سکھ بچوں کی ہندی سیکھنے کی کوشش کے دوران رونما ہونے والے دلچسپ واقعات مزے لے لے کر سنا رہا تھا۔
میں بظاہر اس کی باتوں پر دل کھول کر ہنس رہا تھا۔ لیکن میرا ذہن مسلسل صورتِ حال کا تجزیہ کر رہا تھا۔ اب یہ تو تقریباً ثابت ہو ہی گیا تھا کہ ایک گرگ باراں دیدہ قسم کا پولیس والا سائے کی طرح میرے ساتھ لگا ہوا ہے۔ لیکن میں تاحال یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ محض شک کے تحت یہ سب کچھ کر رہا ہے یا اسے میری اصلیت کا پتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس نے میرے حوالے سے دستیاب تفصیلات ازبر کر رکھی ہوں اور ان کی روشنی میں یہ مجھے پہچان گیا ہو۔ لیکن اگر یہ میری اصلیت سے واقف ہے تو اب تک میری گردن کیوں نہیں پکڑی؟ اسے اندازہ ہونا چاہیے کہ ذرا سا بھی شک ہونے پر میں چھلاوے کی طرح غائب ہو سکتا ہوں اور میری راہ میں حائل ہونا اسے مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔
اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ یہ اپنے محکمے کی ہدایت پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مجھ سے ٹکرایا ہے یا اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری کا لوہا منوانے کے لیے اپنے طور پر یہ مہم اپنے ذمے لے لی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس شخص کو اپنے آپ پر غیر معمولی اعتماد رہا ہوگا۔ اور ضروری نہیں کہ یہ اعتماد بے جا ہو۔ مجھے یہ پہلو ذہن میں رکھ کر اس سے نمٹنے کی حکمتِ عملی بنانی چاہیے۔ ذرا سا تساہل بھی میری کہانی کو عبرت نام انجام سے دو چار کر سکتا ہے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کے لیے میری ساری جدوجہد خاک میں مل سکتی ہے۔
ایک اور بڑا سوال یہ تھا کہ اگر اس نے مجھے واقعی پہچان لیا ہے تو اب یہ مجھے شکنجے میں جکڑنے کے بجائے میرے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کیوں کھیل رہا ہے؟ کیا اسے محض شک ہے۔ جسے یقین میں بدلنے کے لیے یہ میری قریب سے نگرانی کرنا چاہتا ہے؟۔
تبھی میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ یہ شخص مجھے نہ صرف پہچان گیا ہے۔ بلکہ میرے ذریعے میرے باقی ساتھیوں تک بھی پہنچنا چاہتا ہے۔ یہ یقیناً انبالے پہنچ کر میرا تعاقب کرتے ہوئے میرے ٹھکانے تک پہنچنے کی جستجو میں میرے ساتھ لگا ہوا ہے۔
لیکن محض اتفاقاً ہی سہی۔ اس لومڑی صفت شخص سے ایک سنگین غلطی سرزد ہو چکی تھی۔ اس نے غیر ارادی طور پر خود کو میرے سامنے بے نقاب کر دیا تھا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ اس نے نہایت مہارت سے اپنے لباس میں گن چھپا رکھی تھی۔ اونی کوٹ میں مجھے کہیں نمایاں ابھار دکھائی نہ دیا۔ میں اندازہ ہی لگا سکتا تھا کہ وہ پستول یا ریوالور شاید کسی بغلی ہولسٹر میں رکھا گیا ہوگا۔ خدا جانے وہ حاجت خانے میں کیسے نکل کر دیوار سے ٹکرایا اور نیچے گر پڑا۔
میں گوسوامی کے مخاطب کرنے پر چونکا۔ ’’چلو بھیا۔ بس روانگی کے لیے تیار ہے‘‘۔ میں نے دیکھا کہ واقعی ڈرائیور اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھ چکا ہے اور بیشتر سواریاں بھی اپنی سیٹیں سنبھال چکی ہیں۔ ہمارے ادائیگی کرنے تک ڈرائیور نے ایک بار ہارن بھی بجا دیا۔ ہمارے سوار ہوتے ہی بس حرکت میں آگئی۔
مہتاب سنگھ نے مجھے جو بتایا تھا۔ اس کے مطابق اب بس کو چند منٹ پھگواڑا رکنا تھا اور اس کے بعد وہ گھنٹے سوا گھنٹے کے بعد لدھیانے پہنچ کر ہی رکتی۔ اس سے پہلے میں گوسوامی سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کر سکتا تھا۔
گوسوامی کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد اس کی ہر بات مجھے تصنع سے بھرپور لگنے لگی تھی اور مجھے اس کا ساتھ گراں گزر رہا تھا۔ بالآخر میں نے اونگھنے کا ناٹک کیا۔ جب اس کی کئی باتوں پر میں نے ردِ عمل ظاہر نہ کیا تو آہستہ آہستہ وہ خاموش ہوگیا۔ اپنی غنودگی گہری ہونے کا یقین دلانے کے لیے میں ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا۔
بس کے باقی مسافر بھی شاید میری ہی جیسی کیفیت کا شکار تھے۔ یا پھر سفر کی طوالت سے اکتا کر انہوں نے زبردستی نیند کی چادر اوڑھ لی تھی۔ انجن کی بھنبھناہٹ کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے واقعی نیند آنے لگی۔ لیکن میں خواب غفلت میں کھوکر خود کو اپنے پہلو میں براجمان اس خطرناک شخص کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
لگ بھگ پندرہ منٹ کے بیزار کن انتظار کے بعد گوسوامی نے اپنی سیٹ پر اس بے ہنگم انداز میں پہلو بدلا کہ میرے کاندھے کو اچھے خاصے زور کا دھکا لگا۔ اگر میں کچی نیند سو رہا ہوتا تو یہ دھکا مجھے جگانے کے لیے کافی تھا۔ میرے لیے سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ میری غنودگی کی شدت کو جانچنا چاہتا ہے۔ اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے۔ یہ میری مدہوشی کا اطمینان کرنے کے بعد میرے لباس کو ٹٹولنا چاہتا ہے۔ اگر میں نے نیند کا ناٹک جاری رکھا تو یہ میرے لباس میں پوشیدہ پستول کی موجودگی کا پتا لگالے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More