دارالعلوم دیوبند سے پوچھئے

0

راستے میں تقریب منعقد کرنا
سوال: اکثر دیکھنے میں آ تا ہے کہ کسی کے گھر کوئی تقریب ہوتی، جیسے شادی عقیقہ یا حج سے واپسی پر کھانا وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور مذکورہ مقصد کے لیے عام راستہ بند کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ منع کرنے پر بحث کرنے لگتے ہے۔ کبھی کبھی تو معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی بھی قسم کی تقریب کے لیے عام راستہ بند کرنا جائز ہے؟ کیا شریعتِ اسلامیہ میں اس کی کسی درجے میں اجازت ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: حدیث میں ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ایمان کا سب سے ادنیٰ شعبہ ہے تو پھر راستے کے ذریعے تکلیف پہنچانے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس لیے سڑکوں وغیرہ پر تقریبات کرنے سے جس سے لوگوں کی آمد ورفت میں خلل ہو، حتی الامکان احتراز کرنا چاہئے، لیکن اگر تقریب کے لیے سڑک کے علاوہ کوئی دوسری شکل نہ ہو اور قریب میں کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو، جس سے لوگ اپنی ضروریات پوری کرسکیں، نیز وہ تقریب مباح اور ضروری بھی ہو تو بدرجہ مجبوری سڑکوں سے تھوڑا سا حصہ لیا جائے اور مناسب راستہ آمد ورفت کا چھوڑ دیا جائے۔
ایک حدیث میں اس کی گنجائش بھی ہے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا: اگر بدرجہ مجبوری راستہ پر بیٹھنا پڑے تو راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہؓ نے پوچھا: حضور! راستے کا کیا حق ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، گزرنے والوں کو تکلیف پہنچانے سے بچنا، سلام کا جواب دینا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجبوری میں بھی ایسی صورت اختیار کرنی چاہئے، جس سے گزرنے والوں کی آمد ورفت میں خلل نہ ہو اور انہیں تکلیف بھی نہ پہنچے۔(مشکوٰۃ)
حدیث مذکور میں ’’مالنا من مجالسنا بد‘‘ (ہمارے لیے راستے پر بیٹھنا ناگزیر ہے) کے جز سے معلوم ہوا کہ حضور اقدسؐ نے صحابہ کرامؓ کو صرف اس صورت میں اجازت دی ہے جب راستے پر بیٹھنے سے بچنے کی کوئی شکل نہ ہو اور فضول مجالس نہ ہوں، جن کا ماحصل یہ ہے کہ تقریب ضروری ہو، اس میں فضول بکھیڑے اور غیر شرعی امور نہ ہوں، نیز راستہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو، یعنی بس دروازے کے سامنے تھوڑا سا حصہ راستہ کا لے لیا جائے، اس کی گنجائش ہوگی۔ پورا راستہ گھیر کر راستہ چلنے والوں کو زحمت پریشانی تکلیف میں ڈالنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ (فتویٰ :1323-168T/H=12/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
سرکاری چیز اپنی ملکیت میں لینا
سوال: میرے گائوں ہر شخص کیلئے الگ الگ سرکاری ہینڈ پمپ تھے، اس سے دوسرے لوگ بھی پانی بھرتے تھے، لیکن کچھ لوگوں نے اس ہینڈ پمپ سے اپنے گھر میں سبمرسبل لگوا لیا ہے، حالانکہ پانی ابھی بھی اس ہینڈ پمپ سے پانی بھرا جاتا ہے، لیکن سبمرسبل لگے ہونے کی وجہ سے دیر لگتی ہے، جس سے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے اور گائوں کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے گھروں کا پانی پینا جائز نہیں، کیونکہ انہوں نے سرکاری ہینڈ پمپ سے سبمرسبل لگوایا ہے اور سرکاری چیز کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ برائے مہربانی مسئلہ بتائیں کہ کیا صحیح ہے؟
جواب: حکومت کی طرف سے جو ہینڈ پمپ گائوں کے اندر لوگوں کی سہولت کے لئے لگائے جاتے ہیں، وہ چونکہ سب کے لئے عام ہیں اور سب کا حق ان سے متعلق ہوتا ہے، لہٰذا ان کے اندر اپنا ذاتی سمرسبل لگانا اور اس کو اپنی مملوکہ چیز کی طرح استعمال کرنا شرعاً درست نہیں، جہاں تک مسئلہ ہے ان کے گھروں سے پانی پینے کا تو محض اس فعل کے ارتکاب کی وجہ سے ان کے گھروں کا پانی پینا ناجائز نہ ہوگا۔(فتاوی ہندیہ: 5/427، ط: اتحاد دیوبند)، (فتویٰ : 1400-1330/L=12/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
انسانی بالوں کی فروخت
سوال: ہمارے یہاں کمپنیاں ہیں، ان میں لوگ کٹے ہوئے بال خرید کرلے آتے ہیں، بعض مسلمان وہاں لائے ہوئے بالوں کو صاف و ستھرا و ترتیب دے کر اجرت لیتے ہیں، بعض لوگ ان بالوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے پر اجرت لیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ دلیل کے ساتھ جواب دیجئے۔ نوازش ہوگی۔
جواب: انسانی بالوں کی خرید وفروخت اور ان کا کاروبار اور ان سے بنائی جانے والی چوٹیوں وغیرہ کا استعمال اسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے، پس ان بالوں کی صفائی، ستھرائی اور ترتیب اور کاروبار ہی کے مقصد سے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام اور ان کی اجرت بھی شرعاً درست نہ ہوگی۔ (فتویٰ :1030-1073/N= 12/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More