رسول اکرمؐ نے مدینہ طیبہ کیلئے حسب ذیل دعائیں فرمائی تھیں:
ترجمہ: ’’یا الٰہی! مدینہ میں مکہ سے دگنی برکت عطا فرما۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث 1369)
آپؐ کی ایک دعا اس طرح بھی وارد ہے:
ترجمہ: ’’الٰہی! مدینہ بھی ہمارے لیے ویسے ہی محبوب بنا دے جیسے تو نے مکہ کو ہمارے لیے محبوب بنایا تھا، بلکہ مدینہ کو مکہ سے زیادہ محبوب بنا دے۔ مدینہ کے تمام عیب دور کر دے۔ ہمارے لیے مدینہ کے صاع و مُد (دو پیمانے) میں برکت عطا فرما۔ مدینہ کے بخار کو جحفہ منتقل کر دے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث 1376)
اب دعائے رسولؐ کی برکات ملاحظہ کیجئے۔
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
’’مدینہ کے راستوں پر فرشتے تعینات ہیں۔ مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث 1379)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ مدینہ کا پھل پک جاتا تو لوگ اسے سب سے پہلے رسول اکرمؐ کی خدمت میں پیش کرتے۔ آپؐ پھل ہاتھ میں لیتے اور
دعا فرماتے:
ترجمہ: ’’الٰہی! ہمارے پھل میں برکت دے۔ ہمارے مدینہ میں برکت دے۔ ہمارے صاع میں برکت دے۔ ہمارے مُد میں برکت دے۔ یا الٰہی! حضرت ابراہیمؑ تیرے بندہ اور تیرے خلیل تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے تجھ سے مکہ کے لئے دعا کی تھی۔ میں تجھ سے مدینے کے لئے وہی شے دگنی مانگتا ہوں جو انہوں نے مکہ کے لیے مانگی تھی۔‘‘
دعائے برکت کے بعد آپؐ سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور اسے وہ پھل عنایت کرتے۔ صحیح (مسلم، حدیث 1373)
اخلاص بھرا قابل رشک عمل
مسلمہ بن عبد الملک نے ایک قلعے کا محاصرہ کیا۔ مسلمانوں کو قلعے کی دیوار میں ایک جگہ اتنا بڑا سوراخ نظر آیا، جس سے ایک شخص داخل ہو سکتا تھا۔ لوگوں نے اس سوراخ کی طرف دیکھا، ایک دوسرے کو توجہ دلائی۔ انہیں اندر کے حالات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس سوراخ کے پاس کتنے لوگ موجود ہیں۔ آیا اس شخص کو سوراخ سے نکلنے اور لڑنے کا موقع بھی مل پائے گا یا نہیں۔ یہ سیدھی سیدھی موت کو گلے لگانے والی بات تھی۔
لوگ ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ سب سے پہلے کون اس کے ذریعے قلعے کے اندر جائے۔ اسلامی لشکر میں سے ایک غیر معروف شخص سامنے آیا اور کہا: میں جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اس سوراخ کے ذریعے قلعے کے اندر چلا گیا اور صورتحال کو سنبھال لیا اور اس کے بعد اور بھی بہت سے لوگ اس کے ذریعے قلعے میں داخل ہوئے اور مسلمانوں نے اس قلعہ کو فتح کر لیا۔ فتح کے بعد مسلمہ بن عبد الملک نے اعلان کیا کہ ’’صاحب نقب‘‘ یعنی سوراخ کے ذریعے سب سے پہلے اندر جانے والا شخص میرے پاس آئے، لیکن کوئی نہ آیا۔ اس نے دوبارہ سہ بارہ یہ اعلان کروایا۔
پھر اعلان کرنے والے کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: سپہ سالار سے میرے لیے ملاقات کی اجازت حاصل کرو۔ اعلان کرنے والے نے پوچھا: کیا آپ ’’صاحب نقب ‘‘ ہیں۔ اس نے جواب دیا: میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ اعلان کرنے والے نے مسلمہ کو بتایا۔ مسلمہ نے فوراً اجازت دیدی۔ اس شخص نے مسلمہ سے کہا: ’’صاحب نقب‘‘ کی اپنے بارے میں کچھ بتانے کے لئے تین شرطیں ہیں۔ مسلمہ نے کہا: اس نے ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہم اس کی ہر شرط ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے کہا: پہلی شرط یہ ہے کہ خلیفہ کو اس کا نام لکھ کر نہ بھیجا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسے کسی انعام کی پیشکش نہ کی جائے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے اس کا نام نہ پوچھا جائے اور نہ یہ پوچھا جائے کہ اس کا تعلق کس قبیلے سے ہے۔ مسلمہ نے کہا: مجھے منظور ہے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں ہی وہ شخص ہوں۔ مسلمہ اس واقعہ کے بعد جب بھی نماز پڑھتا تو یہ دعا ضرور کرتا:
اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی مَعَ صَاحِبِ النَّقْبِ
یا الٰہی! مجھے آخرت میں ’’صاحب نقب‘‘ کا ساتھ نصیب فرما۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post