شیخ خیر نساجؒ، حضرت سری سقطیؒ کے مرید تھے اور حضرت جنید بغدادیؒ کے پیر بھائی۔ ان کا بیان ہے کہ وہ ایک دن اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے۔ اچانک انہیں خیال آیا کہ حضرت جنید بغدادیؒ ان کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ حضرت شیخ خیر نساجؒ نے دل میں کہا کہ یہ کوئی واہمہ ہوگا۔ اس وقت شیخ جنیدؒ یہاں کہاں؟ تھوڑی دیر بعد ان کے دل میں پھر وہی خیال آیا کہ شیخ جنید دروازے پر کھڑے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ حضرت خیر نساجؒ نے اپنے ذہن سے اس خیال کو جھٹک دیا اور کسی کام میں مصروف ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد وہی خیال ابھرا۔ آخر اپنی خیالی رو سے پریشان ہو کر حضرت خیر نساجؒ نے دروازہ کھولا تو حضرت جنید بغدادیؒ کھڑے تھے۔ شیخ نساجؒ کو دیکھتے ہی حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا:’’ جب پہلی بار آپ کے ذہن میں خیال آیا تو اسی وقت باہر کیوں نہیں آئے؟‘‘
حضرت شیخ نساجؒ حضرت جنید بغدادیؒ کی اس قوت کشف پر حیران رہ گئے، اکثر اپنی مجلس میں کہا کرتے تھے: ’’دوسرے بزرگوں کو بھی روحانی تصرف حاصل ہے، مگر شیخ جنیدؒ کی روحانیت کا عجیب عالم ہے۔‘‘
مولانا جامیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق ’’ نفحات الانس‘‘ میں یہ واقعہ تحریر کیا ہے کہ مشہور بزرگ کہمش بن حسینؒ ہمدان میں رہتے تھے اور ابو محمدؒ کے لقب سے مشہور تھے۔
ایک دن رات کے وقت کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی، ابو محمدؒ کہتے ہیں کہ دستک کی آواز سنتے ہی میرے خیال میں آیا کہ شیخ جنیدؒ آئے ہوں گے۔ حالانکہ حضرت جنیدؒ اس وقت ہمدان سے بہت دور بغداد میں قیام فرما تھے۔ پھر جیسے ہی ابو محمدؒ گھر سے باہر آئے حضرت جنید بغدادیؒ کو دروازے پر اپنا منتظر پایا۔
’’ ابو محمدؒ! میں خاص طور پر تم سے ملنے کیلئے بغداد سے یہاں آیا ہوں۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا اور بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملے، پھر کچھ دیر تک گفتگو کرتے رہے اور اس کے بعد تشریف لے گئے۔
دوسرے دن محمدؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو بہت تلاش کیا، مگر آپؒ کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ قافلے والوں سے جا کرپوچھا تو ان لوگوں نے بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔
مشہور بزرگ عفیفؒ کہتے ہیں کہ میں حج کیلئے جارہا تھا۔ روانگی سے پہلے میں نے سوچا تھا کہ شیخ جنید بغدادیؒ کی خدمت میں حاضری دوں گا، مگر جب بازار پہنچا تو اپنی صوفیت اور درویشی کا غرور آڑے آگیا۔ میں تقریباً چالیس دن تک بغداد میں رہا، مگر شیخ جنیدؒ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا۔ اس دوران میرا معمول تھا کہ جب اپنے اوراد و وظائف سے فارغ ہوجاتا تو شہر کے باہر جا کر کسی پاک و صاف چشمے سے پینے کیلئے پانی لے آتا۔ ایک دن میں پانی لینے کی غرض سے جنگل میں چلا جا رہا تھا کہ ایک ہرن کو دیکھا جو کنوئیں میں منہ ڈال کر پانی پی رہا تھا۔ پھر جب میں قریب پہنچا تو ہرن بھاگ گیا، میں نے جھانک کر دیکھا تو پانی بہت گہرائی میں تھا۔ میں نے ڈول ڈالا، مگر رسی چھوٹی ہونے کی وجہ سے پانی تک نہ پہنچ سکی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آخر وہ ہرن کس طرح اپنی پیاس بجھا رہا تھا، یہ میری آنکھوں کا دھوکا تھا یا پھر ہرن کیلئے کنوئیں کا پانی چھلک اٹھا تھا، میں کچھ دیر تک اس ذہنی کشمکش میں مبتلا رہا، آخر پانی کی تلاش میں آگے بڑھ گیا، اب میرا سفر جاری تھاکہ یکایک ایک صدائے غیبی سنائی دی:
’’وہ تیری آنکھوں کا دھوکہ نہیں تھا۔ خدا کی قدرت سے پانی نے یہاں تک جوش مارا کہ ہرن کے ہونٹوں تک پہنچ گیا۔‘‘
صدائے غیب سن کر میں نے عرض کیا:’’ خداوند! کیا میرا مرتبہ اس ہرن سے بھی کم ہے؟‘‘
میری شکایت کے جواب میں ہاتف غیب نے کہا:’’ ہم نے تجھے آزمایا مگر تو آزمائش میں پورا نہیں اترا۔‘‘
حضرت عفیفؒ کہتے ہیں کہ میں ندامت و شرمساری کے عالم میں آگے بڑھ جانا چاہتا تھا کہ وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔’’ خیر! وہ وقت تو گزر گیا، دوبارہ کنوئیں پر جاؤ، تمہیں پانی مل جائے گا۔‘‘
میں تیز قدموں کے ساتھ واپس آیا تو واقعۃ کنواں چھلک رہا تھا۔ میں اپنا ڈول بھر کر واپس آگیا، پھر جب کھانے کے بعد میں نے پانی پینا چاہا تو وہی صدائے غیب گونجنے لگی۔
’’ تونے ابھی تک اس راز کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ تجھے اپنی درویشی پر بڑا ناز ہے۔‘‘
یہ آواز سن کر میں لرز گیا’’ خداوند! میں بہت عاجز ہوں، کمزور ہوں، مجھ پر رحم فرما۔‘‘
میری گریہ وزاری کے جواب میں ہاتف غیب نے کہا ’’ہرن بغیر ڈول کے آیا تھا اور تو ساز وسامان کے ساتھ کنوئیں تک پہنچا، اس لئے ہم نے دونوں کے ساتھ مختلف سلوک کیا۔‘‘
عفیفؒ کہتے ہیں کہ اس پانی میں خاص بات یہ تھی کہ میں جب تک بغداد میں مقیم رہا، وہ پانی ختم نہیں ہوا، جس قدر پیتا تھا اسی قدر برتن میں موجود پاتا تھا۔
پھر کچھ دن بعد حضرت عفیفؒ حج کے لئے چلے گئے، پھر واپسی میں دوبارہ بغداد آئے، مگر حضرت جنید بٖغدادیؒ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے۔ ایک روز نماز کیلئے جامع مسجد پہنچے تو اتفاقا حضرت جنید بٖغدادیؒ سے ملاقات ہوگئی۔عفیفؒ کو دیکھتے ہی آپؒ نے فرمایا:
’’ اگر تم صبر کرتے تو خود تمہارے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوجاتا۔ کاش! تم نے ایک گھڑی صبر سے کام لیا ہوتا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کی قوت کشف پر حضرت عفیفؒ حیران رہ گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post