ہجرت نبوی کے تیسرے سال اُحد کے میدان میں معرکۂ حق و باطل برپا ہوا تو چشم فلک نے ایک عجیب منظر دیکھا… بلندو بالا قد اور گندم گوں رنگ کے ایک نورانی صورت مجاہد، قمیص اور زرہ سے بے نیاز، ننگے بدن مشرکین مکہ کی صفوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو بے تاب ہوگئے۔
آگے بڑھ کر انہیں روک لیا اور کہا: ’’خدا کی قسم، میں آپ کو اس حالت میں دشمن کا ہدف نہیں بننے دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اپنی زرہ اتار کر ان صاحب کو پہنا دی۔ اس وقت تو انہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کی بات مان لی، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد زرہ اتار پھینکی اور پھر سینہ عریاں کیے شمشیر بدست دشمن کی طرف بڑھے۔ حضرت عمر فاروقؓ پھر دوڑتے ہوئے ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ نے زرہ کیوں اتار دی ہے؟ انہوں نے کڑک کر کہا: ’’عمر! میرے راستے سے ہٹ جاؤ، اگر تم شہادت کے تمنائی ہو تو میرے دل میں بھی شوق شہادت کے شعلے بھڑک رہے ہیں، زرہ وہ پہنے، جس کو زندگی عزیز ہو، میں تو اپنی زندگی راہِ حق میں بیچ چکا ہوں۔‘‘
حضرت عمر فاروقؓ خاموش ہوگئے اور سر جھکائے ہوئے واپس اپنی صف میں آگئے۔ اُدھر وہ صاحب برہنہ تن ہی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور اس جوش اور وارفتگی سے لڑنے لگے کہ شجاعت بھی آفریں پکار اٹھی… یہ مرِد جری جن کو شوقِ شہادت نے قمیص اور زرہ سے بے نیاز کر دیا تھا، حضرت زیدؓ بن خطاب یعنی سیدنا عمرفاروقؓ کے بھائی تھے۔
سیّدنا حضرت ابو عبد الرحمن زیدؓ بن خطاب کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق قریش کے خاندان ’’بنو عدی‘‘ سے تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ ان کے سوتیلے بھائی تھے اور عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔
حضرت زیدؓ کی والدہ کا نام اسماء بنت وہب تھا اور وہ بنو اسد سے تھیں۔ حضرت عمرؓ، خطاب بن نفیل کی دوسری اہلیہ حنتمہ بنت ہاشم بن المغیرہ کے بطن سے تھے۔ سوتیلے ہونے کے باوجود دونوں بھائیوں میں کمال درجے کی محبت تھی، جس میں ازدیادِ عمر کے ساتھ برابر اضافہ ہوتا رہا۔
حضرت زیدؓ بن خطاب کو رب تعالیٰ نے فطرت سعید سے نوازا تھا، وہ ان عظیم المرتبت نفوس میں سے ہیں، جنہوں نے بعثت نبوی کے ابتدائی تین برسوں کے دوران میں دعوت حق پر لبیک کہا اور پھر سالہا سال تک مشرکین مکہ کے ہولناک مظالم کا ہدف بنے رہے۔ 13 ہجری بعد بعثت میں سرور عالمؐ نے بلاکشانِ اسلام کو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت زیدؓ بن خطاب مہاجرین کے پہلے قافلے کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آگئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے مہاجرین کے تیسرے قافلے کے ساتھ ہجرت کی اور قباء میں حضرت رفاعہؓ بن عبد المنذر کے ہاں قیام کیا۔ تھوڑی ہی عرصہ بعد سرور عالمؐ نے بھی مدینہ میں نزول اجلال فرمایا اور اس قدیم شہر کے ورو دیوار طلعت اقدس سے جگمگانے لگے۔ ہجرت کے چھٹے مہینے میں حضورؐ نے حضرت ابو طلحہؓ انصاری (خادم رسولؐ حضرت انسؓ بن مالک کے سوتیلے والد) کے مکان پر انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان میں مواخاۃ قائم کی۔
حافظ ابن عبد البرؒ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے حضرت زیدؓ بن خطاب کو حضرت معنؓ بن عدی عجلانی انصاری کا دینی بھائی بنایا۔
2 ہجری میں بدر کے مقام پر حق اور باطل کے درمیان پہلا معرکہ ہوا تو حضرت زیدؓ بن خطاب کو ’’اصحاب بدر‘‘ میں شامل ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا۔ اگلے سال غزوئہ احد میں انہوں نے والہانہ جوش و خروش سے داد شجاعت دی۔ احد کے بعد غزوئہ خندق میں سرفروشی کا حق ادا کیا۔ 6 ہجری میں انہوں نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان میں شریک ہونے کی لازوال سعادت حاصل کی۔ فتح مکہ کے بعد حنین، اوطاس اور طائف کے معرکے پیش آئے تو ان میں بھی وہ برابر رحمت عالمؐ کے ہم رکاب رہے۔ حجتہ الوداع (10ہجری) میں بھی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حجتہ الوداع کے زمانے میں ایک دن سرور عالمؐ نے حضرت زیدؓ بن خطاب کے سامنے یہ حدیث بیان فرمائی: ’’جو تم کھاتے ہو، وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو پہنتے ہو، وہی اپنے غلاموں کو پہناؤ، اگر وہ کوئی خطا کریں جو تم معاف نہ کر سکو تو ان کو فروخت کر ڈالو۔‘‘
غرض عہد رسالت میں شاید ہی کوئی ایسا شرف ہو، جو حضرت زیدؓ بن خطاب نے حاصل نہ کیا ہو۔ وہ خیر البشرؐ کے ان جاں نثاروں میں سے تھے جو حق کی حمایت میں ہمیشہ سر بکف رہتے تھے اور کسی قسم کا دباؤ، لالچ یا خوف انہیں اس کام سے باز نہیں رکھ سکتا تھا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post