حجاج بن یوسف کی جانب سے قتل کا حکم سن کر حضرت سعید بن جبیرؒ مسکرائے۔
حجاج نے پوچھا: ’’تم کیوں مسکرائے ہو؟‘‘
فرمایا: ’’تیری جرأت اور تیرے متعلق حق تعالیٰ کی بردباری دیکھ کر مسکرایا ہوں۔‘‘
حجاج نے حکم دیا: ’’ارے جلاد! اسے قتل کر دو!‘‘
آپؒ نے قبلہ رخ منہ کیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: ’’میں (سارے مذاہب باطلہ سے ) الگ ہو کر اپنا رخ صرف اس ذات قدوس کی طرف پھیرتا ہوں، جس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور میں مشرکین میں داخل نہیں۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’اس کا منہ قبلہ کی طرف سے ہٹا دو۔‘‘
آپؒ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: ’’جس طرف بھی منہ پھیرو، اسی طرف خدا ہے۔‘‘
حجاج نے کہا: اسے منہ کے بل لٹا دو۔ تو یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: ’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے، اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے۔‘‘
حجاج نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’خدا کے اس دشمن کو قتل کر دو، میں نے زندگی میں آیات قرآنی کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
حجاج ملعون خدا کے اس سچے ولی کی کرامت دیکھ رہا ہے، مگر بد بختی اسے اپنے خیال سے پھرنے کی اجازت نہیں دیتی اور اسی حالت میں ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔
حضرت سعید بن جبیرؒ کلمہ شہادت پڑھ کر بولے:
’’اے حجاج! لے میرا یہ آخری کلمہ محفوظ رکھ، یہاں تک کہ ہم قیامت میں خدا کے سامنے حاضر ہوں۔‘‘
آخر میں حضرت سعید بن جبیرؒ یہ دعا کرتے ہیں:
ترجمہ: ’’خدایا! میرے بعد اس کو کسی شخص کے قتل پر مسلط نہ فرمائیے۔‘‘
حجاج: ’’اس گستاخ کو زیادہ بولنے کی فرصت نہ دو۔‘‘
جلاد بے رحم بڑھا اور اس مقدس سر کو بدن سے جدا کر دیا، جس کا زمانہ محتاج تھا۔
حضرت سعیدؒ کے بدن سے خلاف دستور خون کا فوارہ شدت سے جاری ہے۔ حجاج کو اس وقت یہ حیرت ہے کہ اس کے ظلم کا ہاتھ کسی غریب کے خون پر صرف آج ہی نہیں اٹھا، بلکہ یہ اس کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ مگر آج سے پہلے کسی شہید کا اتنا خون بہتے ہوئے اس نے نہ دیکھا تھا۔
حجاج پر قہر الٰہی کا نزول
حضرت سعید بن جبیرؒ کے قتل کو ابھی پندرہ دن نہ گزرے تھے کہ حجاج بن یوسف شدید بخار میں مبتلا ہو گیا، کبھی بے ہوش ہو جاتا اور کبھی ہوش میں آتا، جب آنکھ لگتی تو چیخ مار کر اٹھتا اور کہتا:
’’سعید بن جبیر نے میرا گلا پکڑ رکھا ہے، سعید بن جبیر مجھ سے پوچھتا ہے بتائو تو نے مجھے قتل کیوں کیا؟‘‘
پھر حجاج بچوں کی طرح رونے لگتا اور کہتا بھلا سعید بن جبیر سے میرا کیا واسطہ، مجھے کیا ہو گیا، دنیا والو! سعید کو مجھ سے پیچھے ہٹا دو، سعید بن جبیر سے مجھے بچا لو، میں مارا گیا، میں لوٹا گیا میں تباہ و برباد ہو گیا۔‘‘
جب حجاج بن یوسف مر گیا اور اسے دفنا دیا گیا تو ایک شخص نے اسے خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا:
’’ اے حجاج! جن کو تو نے قتل کیا، ان کا بدلہ تجھ سے کیسے لیا گیا؟‘‘
اس نے کہا: ’’ہر قتل کے بدلے رب تعالیٰ نے مجھے ایک بار قتل کیا، لیکن سعید بن جبیرؒ کے بدلے مجھے ستر بار قتل کیا گیا۔‘‘
سعید بن جبیرؒ کے واقعات سے یہ سبق ملا کہ دنیا اور اس کی چیزوں سے بے رغبت ہو کر انسان جس چیز کی تلاش میں لگ جاتا ہے، وہ اس کو پا لیتا ہے، حضرت سعید بن جبیرؒ علم کی تلاش میں اسی طرح لگ گئے تھے کہ آخرکار ایک وہ وقت آیا کہ آپ علم کے اعلیٰ اور ارفع (بلند) مقام پر پہنچ گئے۔
عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے۔ جو دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور دروازہ کو چھوڑتا نہیں ہے تو ایک نہ ایک دن دروازہ کھل ہی جاتا ہے اور وہ شخص اندر داخل ہو جاتا ہے۔ ’’من جد وجد‘‘ جو کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرتا ہے ضرور اس کو پا لیتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مسلمان کو بزدل نہیں بننا چاہئے، جس طرح سعید بن جبیرؒ بہادر تھے کہ حجاج جیسے ظالم سے بھی نہیں ڈرے۔ اسی طرح ہر مسلمان کو بہادر ہونا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ہوگا وہی جو رب چاہیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ موت آ جائے گی تو مسلمان کو کبھی موت سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ موت آ جانا دراصل کوئی ناکامی نہیں ہے، بلکہ موت تو ایک پل ہے جو اس عالم دنیا سے اس عالم آخرت میں جانے کے لیے ہر ایک کو پار کرنا ہے، چاہے ہمت سے پار کرے یا ڈر و خوف سے پار کرے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post