مولانا عبد المجید سالک برصغیر کی اردو صحافت کا معتبر نام ہیں۔ وہ اپنی خود نوشت ’’سرگزشت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے بچپن میں شرفاء اور معززین کی تین بڑی نشانیاں ہوا کرتی تھیں۔ اولاً وہ شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے۔ یا تو خود مشقِ سخن کرتے، لیکن اگر خود شعر نہ بھی کہتے تو اچھی شاعری پڑھتے ضرور تھے اور اس کا رنگ ان کی تحریر و تقریر میں بھی نظر آتا تھا۔ ثانیاً وہ علم ِ طب سے شغف رکھتے تھے۔ ثالثاً وہ بڑے خوش خط ہوا کرتے تھے۔ وہ کاغذ پر لکھتے نہیں تھے، بلکہ موتی پروتے تھے۔ مولانا سالک نے قریباً سو سوا سو سال پہلے کے ہندوستانی معاشرے کی یہ تصویر پیش کی ہے۔ لیکن اب صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ اب تو ہر وہ شخص ’’شرفائ‘‘ کی صف میں شامل ہوتا ہے جو اپنے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین کے خلاف بد زبانی میں مہارت رکھتا ہو۔ شریف اور بھلے مانس لوگوں کو پچھلی صفوں میں جگہ دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان اعلیٰ فواد چوہدری اور سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی مثال دی جا سکتی ہے ۔
پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی کہانی تو خاصی عبرت ناک ہے۔ نجی ٹی وی چینلز پر اُن کی ’’شیریں بیانی‘‘ کے چرچے تو تب ہی ہونے لگے، جب انہوں نے کئی برس پہلے ایم ایم اے کو خیر باد کہہ کر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا شروع کیا تھا، لیکن گزشتہ برس پنجاب کا وزیر اطلاعات بننے کے بعد تو ان کی زبان کی ’’شیرینی‘‘ ٹپک ٹپک پڑتی تھی اور بالآخر اسی شیریں بیانی نے انہیں سابق وزیر بنوا کر چھوڑا۔ جس طرح آدمی اپنی مجلس سے پہچانا جاتا ہے، اسی طرح حکومت اپنے ترجمان سے پہچانی جاتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے ترجمانوں نے اول روز سے حکومت کو جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ قبلہ فیاض چوہان کو وزارت کا حلف اٹھاتے ہی اسٹیج فنکارہ نرگس کو حاجن بنانے کا غم ستانے لگا۔ بعد ازاں وہ ایک نجی چینل کے اسٹوڈیو میں کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان استعمال کرتے پائے گئے، جس کی ویڈیو لیک ہوگئی۔ چند روز پہلے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کشمیری عوام کو ’’چٹے ان پڑھ‘‘ قرار دے دیا، جس پر کشمیری عوام نے شدید احتجاج کرتے ہوئے مظفر آباد، باغ، راولا کوٹ اور میر پور سمیت آزاد کشمیر کے کئی شہروں میں ان کے پتلے نذر آتش کیے۔ علاوہ ازیں آزاد کشمیر اسمبلی میں ان کے خلاف جمع کرائی گئی قرار داد میں ان سے فی الفور استعفیٰ لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا اور اب انہوں نے ہندو کمیونٹی کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی۔ دوسری طرف فواد چوہدری بھی ان سے کچھ کم نہیں ہیں۔ ان کی ’’شیریں بیانی‘‘ تو سینیٹ اجلاس میں ان کے داخلے پر بھی پابندی لگوا چکی ہے۔ جس روز سے اُن کے سبز قدم وزارت اطلاعات میں پڑے ہیں، پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو اسی روز سے سخت مشکلات کا سامنا ہے، حتیٰ کہ کارکن صحافیوں کے لیے اپنے گھروں کے چولہے جلانا مشکل ہوگیا ہے۔ ذرا سوچئے! ایسے وزیر کے ہوتے ہوئے لوگ حکومت کو کتنی ’’دعائیں‘‘ دیتے ہوں گے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ فیصل واوڈا کا بھی ہے کہ وہ بھی بولتے پہلے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں کہ ان کی نطق نے کیا اگلا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فواد چوہدری اور فیاض چوہان کو مرکز اور پنجاب میں حکومت کی ترجمانی کی ذمہ داری صرف اس لیے سونپی گئی کہ دونوں وزیر سیاسی مخالفین سے بدزبانی میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ شنید ہے کہ ان دونوں کو اسی میرٹ پر پرکھ کر پی ٹی آئی کی صفوں میں جگہ دی گئی تھی، لیکن ہر آدمی ہر ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگوں کے جوہر زمانہ امن میں کھلتے ہیں اور کچھ کی صلاحیتیں لڑائی بھڑائی کے دنوں میں کام آتی ہیں۔ عمومی طور پر بھی بدتہذیبی اور بد زبانی ایک حد تک ہی قابلِ برداشت ہوتی ہے۔ لیکن اگر حکومتی عمال کی زبان بھی بگڑنے لگے تو پھر عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خود کیسا ہو گا جس کے وزیر اور مشیر ایسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے وقتوں میں بادشاہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے انتخاب میں بڑی احتیاط برتا کرتے تھے۔ جس بادشاہ نے کم ظرف، بدنسل، بد زبان اور پست فطرت لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کیا، اس کی سلطنت کا سورج جلد ڈوب گیا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
معروف مورخ فخر الدین مبارک شاہ المعروف بہ فخر مدبر غزنوی نظا م حکومت اور فنونِ جنگ سے متعلق لکھی گئی اپنی مشہور کتاب ’’آداب الحرب و الشجاعت‘‘ میں بادشاہوں کے فرائض کے باب میں لکھتے ہیں: ’’بادشاہ کو چاہیے کہ کمینہ لوگوں کی کمینگی، غلام زادوں اور بھک منگوں کی خباثت، گھٹیا پن، شہدے اور لُچے لوگوں کی خساست کو پھیلنے کی اجازت نہ دے تاکہ مسلمان رعایا آرام اور سکون کی زندگی بسر کر سکے، کیونکہ جب یہ لوگ برسر عمل آتے ہیں تو کام برباد ہو کر رہ جاتا ہے، عوا م کی اولاد اور شرفا کے بچے بے کار اور معطل ہو کر رہ جاتے ہیں اور ننگ و عار کے سبب انہیں ان کی دوستی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی کم ظرفی اور نالائقی کے سبب کسی بھی معاملے میں پورے نہیں اتر سکتے۔ یہ بادشاہوں کو مروت و بخشش اور دست گیری کرنے اور انعام و خیرات دینے سے باز رکھتے ہیں۔ خود کو یوں ظاہرکرتے ہیں جیسے ناصح مشفق۔ چاپلوسی، کنجوسی اور حیلہ گری کو دن رات اختیار کیے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ شرفاء، بزرگوں اور ان کے فرزندوں، خدمت گاروں اور خواص پر زیادتی کرتے رہتے ہیں۔ سلطنت کی تباہی، مملکت کی بربادی اور لوگوں کی تباہ حالی کا باعث یہی لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ معمولی سے اقتدار پر بے حد مغرور ہو جاتے اور ناقابل حصول چیزوں کی خواہش اور لالچ کرتے ہیں اور اگر ایسی اشیا تک ان کی رسائی نہ ہو سکے تو بہت جلد کفرانِ نعمت پر اتر آتے ہیں‘‘۔
سلطان شمس الدین التمشؒ کے انتقال کے بعد ان کے نااہل جانشین امور سلطنت کو چلانے میں ناکام ثابت ہوئے تو ملک انتشار کا شکار ہونے لگا۔ عمال ِ حکومت خود سر ہوگئے۔ لوگوں کے دلوں سے بادشاہت کا رعب و دبدبہ زائل ہونے لگا۔ ایسے نازک حالات میں سلطان غیاث الدین بلبن نے عنان اقتدار سنبھالی تو تخت نشینی کے پہلے ہی سال پورا ملک ان کا مطیع و فرمانبردار ہو گیا۔ مورخ ضیاء الدین برنی نے ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ میں اس کی ایک وجہ یہ لکھی ہے کہ ’’سلطان بلبن نے تخت نشین ہوتے ہی ایسے لوگوں کو ملک و دولت کا معاون و مددگار بنایا، جن کی سرداری و بزرگی اور شجاعت و سخاوت میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ کسی کم مایہ، بے ہنر، کنجوس، لالچی اور کمینہ قسم کے شخص کو سرداری و بزرگی نہ دی۔ اپنے عزیزوں اور غلاموں میں سے اگر کسی کو آگے لایا بھی تو اُن کو جو اُس وقت اپنی نیک نامی، رعیت پروری اور بندہ نوازی میں شہرہ آفاق تھے۔ بلبن نے اپنے تمام دورِ حکومت میں کسی کاہل، بد اصل، سفلے اور کم ہمت شخص کو کسی بھی عہدے پر فائز نہ کیا، بلکہ ایسے لوگوں کو محل کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہ دی۔ وہ جب تک کسی شخص اور اس کی اصل و نسل کی تحقیق نہ کر لیتا، کسی قسم کا عہدہ یا کام اس کے سپرد نہ کرتا۔ اسے کمینے اور گھٹیا لوگوں کی سروری و سرداری سے طبعی طور پر نفرت تھی۔‘‘
موجودہ حکمران اگر چاہتے ہیں کہ وہ اپنی مدت پوری کریں اور ان کے جانے کے بعد لوگ انہیں اچھے لفظوں سے یاد کریں تو پھر انہیں اپنے وزیر، مشیر منتخب کرتے وقت سلطان غیاث الدین بلبن جیسے بادشاہوں کے طے کردہ آئین جہانبانی پر عمل کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
Next Post