آزادی کی قدر

0

’’نہیں جان! آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی…‘‘ یہ جملہ پڑھ کر آپ کو لگا ہوگا کہ کسی فلم کا ڈائیلاگ ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، یہ تاریخی الفاظ سابق پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق مرحومؒ کے ہیں، جو انہوں نے امریکی ٹی وی کے اینکر جان کو انٹرویو کے دوران ادا کئے تھے اور پوری دنیا نے ان کے الفاظ کی گونج سنی تھی، کیوں کہ ان الفاظ میں یہ راز پوشیدہ تھا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا ہے، مزید بنائے گا اور اپنے ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اس دور میں آج کی طرح دنیا میں ٹی وی چینلز کا جمعہ بازار بھی نہیں لگا تھا، پاکستان سمیت اکثر ملکوں میں تو صرف سرکاری ٹی وی ہوتے تھے، پوری دنیا میں چند ایک ہی نجی کا ٹیگ لگائے نیم سرکاری چینل ہوتے تھے، جن پر پوری دنیا کی نظریں اور کان لگے ہوئے ہوتے تھے۔
ویسے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور دھماکوں کا کریڈٹ لینے والوں کی لمبی فہرست ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بابائے ایٹمی پروگرام جنرل ضیاء الحق ہی تھے، یہ ٹھیک ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس پروگرام کا خواب دیکھا تھا، لیکن یہ ایسا خواب تھا کہ جنرل ضیاء الحق جیسا رہنما نہ ہوتا تو اس کی تعبیر مشکل ہی نہیں، شاید ناممکن ہوجاتی۔ یہ جنرل ضیاء الحق تھے، جنہوں نے اس پروگرام کے آغاز سے لے کر اس کے بم کے تجربے (کولڈ ٹیسٹ) تک اس کی ایسے حفاظت کی، جیسے باپ اپنے بچوں کی کرتا ہے۔ انہوں نے جنگل نما دنیا میں اس پروگرام کی بڑے مشکل حالات میں تیزی سے اور بہت اچھی پرورش کی۔ اسے عالمی درندوں کے حملوں سے ہی نہیں بچایا، بلکہ امداد کے نام پر میٹھا زہر دینے والوں سے بھی اس کی کامیابی سے حفاظت کی۔ انہوں نے دھمکیاں سنیں، دبائو برداشت کیا، بڑی بڑی پیشکشیں مسترد کیں، لیکن اس پروگرام کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دی، بیک وقت کئی ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے سرگرم تھیں، لیکن انہوں نے تمام سازشیں ناکام بنا دیں اور پاکستان کے لئے ابد تک رہنے والا ایسا اثاثہ حاصل کرلیا، جس کی بدولت پاکستانیوں کی آنے والی نسلیں بھی دنیا میں سر فخر سے اٹھا کر چلتی رہیں گی، انہوں نے پاکستان کو ایسا ڈیٹرنس دے دیا، جس نے ہمارے دشمنوں کو دانت بھیچنے کے علاوہ کسی جوگا نہیں چھوڑا۔ وہ جب بھی ہماری طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارا ایٹمی پروگرام ایسا آئینہ بن جاتا ہے، جسے دیکھ کر ان کی نظر جاتی رہتی ہے، ہاں بس افسوس ہوتا ہے کہ قوم کو اتنا بڑا تحفہ دے کر جانے والے جنرل ضیاء الحق کو بھلا دیا گیا ہے، الٹا ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو انہیں برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ آگے بڑھنے سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے اس انٹرویو کا متن:
اینکر جان نے سوال کیا: تو آپ کو ایٹمی ٹیکنالوجی اس لئے چاہئے کیوں کہ آپ بجلی بنانا چاہتے ہیں؟ اس پر جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا: جی بالکل۔
اینکر بولا: تو اس کا تیز رفتار طریقہ یہ ہے کہ آپ ایٹمی دھماکوں پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کردیں، اگر آپ یہ دستخط کر دیں تو ایک دن میں ہی آپ کو امریکی کمپنیوں سے 50 لیئر جیٹس مل جائیں گے، امریکی کمپنیاں آپ کی مدد کو آجائیں گی تاکہ ایٹمی توانائی کے ذریعے آپ کو بجلی کی تیاری میں مدد دے سکیں اور پھر جان خود ہی بولا: لیکن مجھے لگتا ہے آپ ایسا نہیں کریں گے، کیا آپ اس معاہدے پر دستخط کریں گے؟
جنرل ضیاء الحق نے جان کو مایوس نہیں کیا اور کہا بالکل ہم اس معاہدے پر قطعی دستخط نہیں کریں گے۔ اینکر نے پھر سوال داغا: کیوں، آپ کیوں دستخط نہیں کرتے؟ اس پر جنرل ضیاء الحق نے تاریخی جواب دیا اور کہا: جان! آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ (ایٹمی پروگرام) کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم توانائی چاہتے ہیں تو اس کی قیمت اپنی آزادی اور خود مختاری کی صورت میں دیں، ہم اس قیمت پر بالکل سول ایٹمی توانائی امریکہ سے نہیں لیں گے، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے میں ایٹمی پھیلائو کا فوجی مقاصد کے لئے روکنا صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں، بلکہ یہ پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے ہونا چاہئے، یہ پورے خطے کے لئے ہونا چاہئے۔
امریکی اینکر نے ایک اور سوال اچھالا: تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں؟ جنرل ضیاء الحق حاضر دماغ تھے، انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا، نہیں بالکل نہیں، ہم نہ تو بھارت کو اس کی (پالیسی ڈکٹیٹ) اجازت دیں گے اور نہ ہی بھارت کے لئے ہم ایسا کرنا چاہیں گے۔
جان نے پھر سوال کیا: لیکن عملی طور پر تو ایسا ہی ہو رہا ہے، اگر آپ بھارت کے ردعمل کا شکار نہ ہوں تو آپ این پی ٹی پر دستخط کے ذریعے ایک بہت مضبوط سویلین ایٹمی پروگرام بنا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق تھوڑا سا مسکرائے اور کہا: نہیں میں ایسا نہیں سوچتا، میرے خیال میں ہم بھارت اور امریکہ کی سوچ کو اس مقام پر لے آئے ہیں، جہاں وہ ہماری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے کے حوالے سے سوچ علاقائی ہونی چاہئے۔
جان نے اگلا سوال کیا: کیا یہ سچ ہے کہ آپ بھارت کے ساتھ فوجی توازن رکھنے کے لئے ایٹمی سرگرمیوں میں ملوث ہیں؟ ایک بار پھر جنرل ضیاء الحق نے کہا: نہیں ایسا نہیں ہے۔ امریکی اینکر نے پھر بولا: کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ ایٹم بم کو توازن کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے ہیں؟ جنرل ضیاء الحق نے کہا: نہیں، ہم بھارت کے ساتھ مقابلہ نہیں کر رہے، لیکن ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری بہت عزیز ہے اور ہم بھارت کو کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں دھمکا سکے۔ امریکی اینکر نے کہا: تو جناب صدر آپ نے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ آپ کے پاس بم (ایٹمی) ہے، یہ آپ کے اپنے الفاظ ہیں کہ آپ کے پاس بم ہے، لیکن اس کے ساتھ آپ اس کی تردید بھی کرتے ہیں، آپ امریکہ سے امداد بھی لے رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ بھی توازن رکھا ہوا ہے؟ اس پر جنرل ضیاء الحق پھر مسکرائے اور کہا کہ میں اپنی قوم کی خود تعریف نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم پاکستانی بہت ذہین ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے اس انٹرویو کو یاد کرنے کی ضرورت موجودہ حالات کی وجہ سے پیش آئی، کیوں کہ بھارت اور اس کے ہمنوا دو ممالک کو پاکستان کے خلاف مہم جوئی سے جس چیز نے روکا ہے، یہ وہی ایٹمی پروگرام ہے، پاک فوج کے جذبے اور تربیت کے بعد اسی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے ہم نے بھارت کی چوہدراہٹ کی ہنڈیا عالمی چوراہے کے بیچ میں پھوڑ دی ہے اور وہ دو ملکوں کو ہمارے خلاف جمع کر کے بھی خیالی پلائو پکانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا، کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ پاکستان اس کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بالکل نہیں ہچکچائے گا، جیسے کہ اس کے طیارے گرانے سے نہیں ہچکچایا۔ کیوں کہ جنرل ضیاء الحق کے الفاظ میں پاکستانی بہت ذہین قوم بھی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ وہ آزادی کے تحفظ کے لئے کسی کا وجود مٹانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More