عمران خان
ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی ریڈ بک میں پہلی بار چار خواتین کو بھی انتہائی مطلوب ملزمان کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ ان خواتین میں سے ایک پنجاب اسمبلی کی سابق رکن زوبیہ رباب ملک ہیں ہیں، جبکہ ان کے شوہر عاصم ملک بھی ایف آئی اے کو انتہائی مطلوب ملزمان میں شامل ہیں۔ انتہائی مطلوب چار خواتین میں سے دو کا تعلق پنجاب سے ہے، جن میں زوبیہ رباب ملک کے علاوہ نادیہ تنویر بھی شامل ہے۔ تیسری انتہائی مطلوب ملزمہ فریال خالد عباسی کا تعلق اسلام آباد سے ہے جبکہ چوتھی ملزمہ عاصمہ رفیق کراچی کی رہائشی ہے۔ ایف آئی اے کے آفیشل ریکارڈ کے مطابق سابق رکن صوبائی اسمبلی زوبیہ رباب ملک انسانی اسمگلروں کی ریڈ بک میں شامل 112 انتہائی مطلوب ملزمان میں واحد خاتون ہیں، جن کیخلاف سب سے زیادہ یعنی 175 مقدمات درج ہیں۔ ان کے شوہر نے لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے کا کام فیوچر کنسرن نامی کمپنی قائم کرکے شروع کیا تھا۔ جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والی انتہائی مطلوب ملزمہ عاصمہ نے یہی کام کراچی میں دیوا اکیڈمی کے قریب کیریئر لنک ڈیولپمنٹ کے نام سے ادارہ قائم کرکے شروع کیا تھا۔ عاصمہ نے نوجوان طلبہ سے اسٹوڈنٹ ویزوں، ریزیڈیشنل اور پروفیشنل امیگریشن کے نام پر بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دیکر بھاری رقوم وصول کیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ایف آئی اے کی انتہائی مطلوب ملزمان کی ریڈ بک میں شامل مرد ملزمان کی کہانیاں ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایف آئی اے کے پنجاب، سندھ، خیبر پختون، اسلام آباد اور بلوچستان کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکلز کی فائلوں میں موجود ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں ریڈ بک میں شامل ہونے والی انتہائی مطلوب خواتین ملزمائوں کی کہانیاں بھی کم دلچسپ نہیں ہیں۔ جن میں ان کی جانب سے شہریوں کو مختلف انداز میں جھانسے دیکر رقوم لوٹی گئیں اور بعد ازاں یہ خواتین منظر عام سے غائب ہوگئیں۔
ایف آئی اے سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پنجاب کے علاقے سرگودھا سے تعلق رکھنے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی زوبیہ رباب ملک اور ان کے شوہر عاصم ملک کا نام ایف آئی اے کی انتہائی مطلوب ملزمان کی ریڈ بک میں اس وقت شامل ہوا جب ان پر شہریوں سے فراڈ کرنے کے الزامات میں 175 مقدمات درج ہوئے اور ان تمام مقدمات میں ایف آئی اے حکام نے ان کی گرفتاری کیلئے عدالت سے ریڈ وارنٹ بھی حاصل کئے۔ تاہم ان دونوں میاں بیوی کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آسکی ہے۔ ان کے کوائف اب بھی ایف آئی اے کی ریڈ بک میں شامل ہیں۔ زوبیہ رباب ملک 2008ء میں بننے والی حکومت میں خواتین کیلئے مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ ایف آئی اے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ان کیخلاف انکوائری اس وقت شروع ہوئی، جب 2011ء میں لاہور میں بڑی تعداد میں شہریوں نے ایف آئی اے کو درخواستیں دیں، جن میں بتایا گیا کہ انہوں نے فیوچر کنسرن نامی کمپنی کی انتظامیہ کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے فی کس لاکھوں روپے ادا کئے۔ تاہم کمپنی کی جانب سے وعدے کے مطابق نہ تو انہیں بیرون ملک بھجوایا گیا اور نہ ہی ان کی رقوم واپس کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے لاہور کے افسران کی جانب سے متاثرہ افراد کی درخواستوں پر مقدمات درج کرنے میں تاخیر کی جانے لگی تو کئی درخواست گزاروں نے مقدمات درج کرانے کے لئے عدالتوں میں درخواستیں دائر کردیں۔ بعد ازاں فیوچر کنسرن کمپنی اور اس کے مالک ملک عاصم سمیت انتظامیہ کیخلاف مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران 2012ء میں یہ اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ اربوں روپے کی انسانی اسمگلنگ میں ملوث سینکڑوں مقدمات کا مرکزی ملزم فیوچر کنسرن کمپنی کا مالک عاصم ملک ایک طاقتور وفاقی شخصیت اور ایف آئی اے کے ذمہ دار آفیسر کی مشترکہ کاوشوں سے دبئی میں ’’خیریت‘‘ سے رہ رہا ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ عاصم ملک کو سرکاری سرپرستی میں اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ایک نجی ایئرلائن کے ذریعے دبئی فرار کرایا گیا۔ جبکہ عاصم ملک کی ملک میں موجودگی کے وقت بھی ہر چھاپے سے قبل متعلقہ تفتیشی افسران کی جانب سے ملزم کو اطلاع دی جاتی رہی۔ تاہم عدالت کی جانب سے سخت نوٹس لینے پر متعلقہ حکام نے اپنا بھانڈا پھوٹ جانے کے خوف سے اس کو فرار کرا دیا تھا۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول 2014ء میں ایف آئی اے حکام نے شہریوں کو بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دیکر اربوں روپے ہتھیانے والے فیوچر کنسرن کے چیف ایگزیکٹو اشتہاری ملزم عاصم ملک اور ان کی بیوی سابق رکن اسمبلی زوبیہ رباب ملک کی گرفتاری کیلئے نیشنل کرائم ایجنسی لندن کو دوبارہ لیٹر جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ملزمان کو پاکستان ڈی پورٹ کیا جائے۔ جبکہ نیشنل کرائم ایجنسی لندن کے اسلام آباد میں موجود لائژن آفیسر سے بھی ملزمان کی گرفتاری کیلئے مدد مانگی گئی۔ اس سے چند ماہ قبل بھی اسی ضمن میں ایف آئی اے نے نیشنل کرائم ایجنسی لندن کو اسی نوعیت کا لیٹر جاری کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق 2015ء میں ایف آئی اے حکام نے اشتہاری ملزمان عاصم ملک اور زوبیہ رباب کے خلاف مزید گھیرا تنگ کرتے ہوئے ان کے خلاف درج ہونے والے تمام 193 مقدمات میں ان کے ریڈ وارنٹ حاصل کر لئے تھے۔ کیونکہ 2011ء سے 2013ء تک درج ہونے والے ان تمام مقدمات پر عدالتی کارروائی جاری تھی۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے تاریخ میں پہلی بار کسی ملزم کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں ریڈ وارنٹ حاصل کئے ہیں۔ اسی دوران عدالتی کارروائی کے ذریعے ایف آئی اے نے جوڈیشل کالونی میں واقع عاصم ملک کی کوٹھی بھی نیلام کرنے کیلئے اپنے قبضہ میں لے لی۔ اسی دوران ایسی اطلاعات منظر عام پر آئیں کہ ایک مقدمہ میں جو ریڈ وارنٹ حاصل کئے گئے تھے، اس میں عاصم ملک نے مدعی سے راضی نامہ لے لیا تھا۔ اس طرح ان دونوں کیخلاف لندن میں کارروائی کا عمل روک دیا گیا۔ تاہم 2015ء میں جب ایف آئی اے حکام نے عاصم ملک اور زوبیہ کے خلاف مزید 193 مقدمات میں ریڈ وارنٹ حاصل کر لئے تو ان کی گرفتاری کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ تاہم گرفتاری پھر بھی عمل میں نہیں آسکی۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول 2016ء میں عدالت کی جانب سے فیوچر کنسرن کے مالک عاصم اور ان کی اہلیہ کی کروڑوں روپے مالیت کی جائیداد نیلام کرنے کا حکم دے دیا گیا، جبکہ عدالت نے اس پراپرٹی پر لئے گئے حکم امتناعی کو بھی خارج کر دیا۔ ذرائع کے بقول ملزمان کی تحصیل بھیرہ میں کروڑوں روپے کی جائیداد تھی، جس پر انہوں نے 2013ء سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا تھا۔ تاہم 2016 کے بعد اس معاملے میں مزید کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی اور نہ ہی ملزمان گرفتار ہوئے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی عاصمہ رفیق نے ضلع وسطی میں واقع دیوا اکیڈمی کے قریب 7 برس قبل کیریئر لنک ڈیولپمنٹ کے نام سے ایجوکیشن اینڈ امیگریشن کنسلٹنسی کا کام شروع کیا تھا، جس میں انہیں اپنے شوہر کی معاونت بھی حاصل رہی۔ عاصمہ کے خلاف 2017ء میں تین مقدمات قائم ہوئے، جبکہ انکوائریاں اس کے علاوہ ہیں۔ ملزمہ گلشن اقبال بلاک تین اور گلستان جوہر میں واقع روفی لیک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر رہی۔ ذرائع کے مطابق ملزمہ عاصمہ نے نیوزی لینڈ میں اپنی اچھی سیٹنگ بنائی ہوئی تھی۔ مقدمات درج ہونے کے بعد عدالتی کارروائی آج تک چل رہی ہے تاہم عاصمہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکی۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ عاصمہ اب بھی اپنے سوشل میڈیا ویب پیجز اور ویب سائٹس کے علاوہ کراچی میں موجود اپنے سب ایجنٹوں کے ذریعے جعل سازی کا دھندا کر رہی ہے۔ ذرائع کے بقول عاصمہ اس وقت ممکنہ طور پر نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں قائم اے ڈبلیو آئی میں ریجنل مارکیٹنگ ہیڈ کے طور پر کام کررہی ہے۔ ملزمہ نے 1997ء سے 2001ء تک ڈاکٹر انصاری ہومیو پیتھک کالج میں تعلیم حاصل کی اور ڈی ایچ ایم ایس کی سند حاصل کی۔ اس نے 2001ء میں ہی کراچی یونیورسٹی سے کامرس میں بی کام مکمل کیا اور 2014ء میں انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرکے رافلز ایجوکیشن نیٹ ورک کے ساتھ ایجوکیشن کنسلٹنٹ کی حیثیت سے منسلک ہوگئی۔ 2010ء میں سوورین ایجوکیشن نیٹ ورک کے ساتھ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ اسی دوران اس نے اپنے ادارے کیریئر لنک ڈیولپمنٹ کی بنیاد رکھی۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق یہ کمپنی اس کے شوہر محمد رفیق اقبال باوانی کی جانب سے بناکر دی گئی تھی۔ جس کے تحت عاصمہ نے شہریوں کو اسٹوڈنٹ ویزوں پر بیرون ملک بھجوانے کیلئے کنسلٹنسی کا کام شروع کیا تھا۔
٭٭٭٭٭