کیبوٹس سے رخصت ہو کر میں فلسطین کے طول و عرض میں گھومتی پھری جزیرہ نما سینا کے جنوبی سرے تک گئی۔ الطور میں ٹھہری، جو بھوتوں کا مسکن لگتا تھا، جسے اس کے باشندے چھوڑ کر جا چکے تھے (اسرائیلی قبضے کی وجہ سے) اور سینا کے مغربی ساحل پر شمال کی جانب ابوردیس کا سفر کیا۔ یہ تمام سفر میں نے فوجی جیپوں، بسوں اور ٹرکوں وغیرہ پر کیا۔ عرب لڑکے مجھے حیرت سے دیکھتے کہ یہ تنہا لڑکی اس ریگستان میں کیا کر رہی ہے۔
ایک مرحلے پر میں نے گھر واپسی کا ارادہ کیا، مگر میرے والد نے رقم نہ بھیجی اور میں نہ جا سکی۔ میں اس کی خواہش کے برعکس اسرائیل آئی تھی۔ اس لیے اب وہ مزید میری کفالت کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس نے جواب ارسال کیا، تیر کر گھر آجاؤ۔ مجھے بڑا صدمہ ہوا۔
اور اس وقت میری آنکھیں کھل گئیں، جب کچھ یسوع کے دیوانوں سے میرا واسطہ پڑا۔ وہ اپنے آپ کو ’’یہود برائے یسوع‘‘ کہہ رہے تھے۔ میں کچھ جاننے کے لیے ان کے ساتھ گئی۔ وہ عہد نامہ عتیق کی بعض آیات سے مجھ پر ثابت کرنا چاہتے تھے (حالانکہ مجھے قائل کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی) کہ عیسیٰ یسوع کی آمد اور جیسے ان کا استقبال اور ان سے برتاؤ ہوا، یہ سب حضرت موسیٰؑ کی پانچ کتب میں بیان ہوا ہے۔
آخرکار میں گھر لوٹ آئی اور اپنے والدین سے ’’یہود برائے یسوع‘‘ کا تذکرہ چھیڑا تو انہیں قدرتی طور پر اسے قبول کرنے میں دِقّت ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے التجا کی کہ میں یہودیت کو ایک موقع اور دوں۔ یہاں سے میری زندگی کے اس خشک دور کا آغاز ہوا، جو بارہ سال تک طول کھینچ گیا۔ مجھے اپنا ذہن صاف کرنے کے لیے مہلت درکار تھی۔ مجھے فخر ہے کہ اپنی بعض کم خوش نصیب سہیلیلوں کے برعکس میں کوریائی ’’سن ماینگ مون‘‘ کے پیروکار (Moonies) اور ہرے کرشنا جیسے فرقوں کے پیچھے کبھی نہ گئی۔
اس دوران ایک مشنری نے میری بیٹی کو ایک پمفلٹ تھما دیا، جس میں ’’شو شو بدھ مت‘‘ کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔میں بدھ مت کے متعلق بہت کم جانتی تھی، مگر اتنا ضرور پتہ تھا کہ وہ لوگ بیرون ملک مبلغ نہیں بھیجتے۔میں ان کے دام میں نہ آئی، تاہم ایک بدھ مرکز ڈھونڈ لیا اور اس مذہب کا سراغ پانے میں کھو گئی۔پانچ سال تک میں بدھ مت پر عمل کرنے میں کوشاں رہی، اس میں غوروفکر کیا اور فرقہ ’’مہایان‘‘ کی پیروکار بنی، جس کے معنی ہیں ’’عظیم گاڑی‘‘۔اس دوران ان میں تبتی یا ’’وجرایان‘‘ فرقے سے متعارف ہوئی، جس کا لغوی مفہوم ہے ’’ہیرا گاڑی‘‘ جو تمام رکاوٹیں پار کرتی چلی جاتی ہے۔
یہودیت اور عیسائیت جیسے واحدانیت کے علمبردار مذاہب سے بیزار ہونے کے بعد خدائے مطلق کی تلاش میں، میں بدھ مت کی طرف مائل ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ تو مذہب سے زیادہ ایک فلسفۂ حیات ہے۔ اس میں گناہ (اور جرم) کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہر بات سبب اور نتیجہ ہے، عمل اور ردعمل ہے۔ انسان اپنے اعمال کیلئے بڑی حد تک ذاتی طور پر ذمہ دار ہے۔ وہ خود اپنا جج اور منصف ہے۔ مجھے بتوں کے آگے جھکنے میں کوئی دشواری نہ پیش آئی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ یہ دیوتائوں کے نمائندے ہونے کے بجائے مہاتما بدھ کی فطرت کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن جب میں فرقہ ’’واجریان‘‘ کے اندر گہرائی میں گئی تو مجھے درجنوں دیوی دیوتائوں ، پیچ در پیچ مذہبی رسوم، مشکل وظائف، الاپنے کیلئے طویل منتروں اور تبتی زبان سے واسطہ پڑا۔بتدریج میں ایسے مرحلے میں داخل ہوگئی جہاں کئی سابق یہودی اور سابق عیسائی (جن میں کئی راہب اور راہبات ہوتے ہیں) بدھ مت کے مطالعے اور عمل کے دوران کہیں بعد میں پہنچتے ہیں۔میں اپنے دل میں سمجھتی تھی کہ اگر مہاتما بدھ ایک بار پھر دنیا میں آجائے تو وہ یہ دیکھ کر شدید صدمے سے دوچار ہوگا کہ اس کی تعلیمات کا کیا حشر ہوا ہے اور کس طرح کروڑوں بدھ مت کے پیروکار اسے خدا جان کر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ پیپل کے نیچے بیٹھ کر جو گیان دھیان کرتا رہا تو کیا اس کا مقصد یہی تھا، جس پر آج اس کے پیروکار عمل پیرا ہیں ۔اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدؐ یہ دیکھ کر نا خوش ہوں گے کہ ان کے پیروکار کیا سے کیا ہوگئے ہیں۔میں جو مسلمان ہوئی تو صرف اس لیے کہ میں اسلام (تمام ادوار اور تمام زمانوں کیلئے ایک عقیدہ اور ایک ضابطہء حیات) اور مسلمانوں میں فرق کر سکتی تھی۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، میری ملاقات ملائیشیا کے ایک طالب علم سے ہوئی جو تین اور طالب علموں کے ساتھ میرے مکان سے متصل آ کر ٹھہرا تھا۔ان میں سے ایک کچھ عرصہ پہلے مجھ سے ایک ہیلتھ فوڈ سپر مارکیٹ میں بھی ملا تھا جہاں وہ جزوقتی کام کرتا تھا۔جب چاروں ہماری ہمسائیگی میں آگئے تو وہ علیک سلیک کرنے آیا۔اس کے بعد میں دوسروں سے ملی اور ہم نے ایک دوسرے کو عشائیے پر بلایا۔وہ میرے گھر میں بدھ مجسمے اور بت دیکھ کر بڑے بدمزہ ہوئے، لیکن ان میں سے ایک اس فکر میں پڑ گیا کہ یہ عورت ’’ایک یہودن‘ ‘ بدھ مت کی حلقہ بگوش کیسے ہو گئی۔ہم کئی گھنٹے گفتگو کرتے رہے اور بہت جلد مجھے یہ احساس ہوگیا کہ میں اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ہم نے سلمان رشدی ، اور اسلام میں عورتوں پر مبینہ جبر جیسے موضوعات پر باتیں کیں۔مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ بعض اسلامی ممالک میں اگرچہ خواتین واقعی کسی قدر جبر کا شکار ہیں مگر دوسرے اسلامی ممالک میں ایسی کوئی بات نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post