عباس ثاقب
اسے وقتی طور پر ناکارہ پاکر میں نے تیزی سے بس کے چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ پستول کا دھماکا تو فلک شگاف تھا ہی۔ اس کی بلند آہنگ، اذیت ناک چنگھاڑ بھی قبر میں سوئے مردے جگانے کے لیے کافی تھی۔ لیکن خوش قسمتی سے اس جگہ پر شاید خدا کی کچھ زیادہ ہی شدید لعنت تھی کہ وہاں مجھے اس ہنگامے کے باوجود کوئی بندہ نظر آیا نہ کوئی بندے کی ذات۔ اگر ہوشیاری دکھانے کے چکر میں میری گولی کا نشانہ بننے والا یہ شخص کسی کی مداخلت کی امید رکھتا تھا تو اسے یقیناً مایوسی ہوئی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ شخص اچانک حملہ کر کے مجھے گولی چلانے پر مجبور نہ کر دیتا تو میں اس پر گولی چلانے سے ہر ممکن گریز کا ارادہ رکھتا تھا۔ اور اگر اس پر گولی چلانے کی نوبت آ بھی جاتی تو میں گولی کے دھماکے کی آواز حتی الامکان کم رکھنے کا کوئی طریقہ نکالتا۔ اگر میں اپنے پستول پر اونی چادر کی کئی تہیں لپیٹنے کے بعد ٹریگر دباتا تو خاصا کم آواز دھماکا ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ باردود کی تباہ کن طاقت گولی کو چادر کی تہوں کو چیر کر بھی ہدف تک پہنچادیتی تھی۔
میں نے اپنے زور پکڑتے غصے کو دباتے ہوئے اس کا جائزہ لیا۔ وہ اپنا لہو میں لتھڑا شانہ بائیں ہاتھ سے دبائے درد سے ڈکرا رہا تھا۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے پاکر اس نے بمشکل اذیت بھری آواز میں کہا۔ ’’میرے اوپر دیا کرو۔ مجھے جلدی سے ہاسپٹل پہنچاؤ۔ میں مرجاؤ ں گا‘‘۔
میں نے چہرے پر مسکراہٹ لاکر بے نیازی سے کہا۔ ’’کیا ہوا مہا سورما جی؟ بہت درد ہورہا ہے؟ اتنے بڑے پولیس افسر ہوکر بلبلا رہے ہو؟ میں نے کہا تھا ناں کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو بہت پچھتاؤ گے۔ لیکن لگتا ہے تمہیں آتم ہتھیا کا بہت شوق ہے‘‘۔
اس نے اپنے کرب پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے پتا ہے۔ میں تم پر حملہ نہ بھی کرتا تو تم مجھے زندہ چھوڑ کر جانے کا خطرہ مول نہیں لو گے۔ میں تمہاری اصلیت سے واقف ہوں اور تمہاری شکل بھی پہچانتا ہوں۔ میں نے سوچا جب مرنا یقینی ہے تو خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کیوں نہ مروں؟‘‘۔
میں نے اس کی زبان سے لفظ ’’اصلیت‘‘ سنا تو میرے دماغ میں بجلی سی چمکی۔ میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔ یہ میری شناخت سے پہلے سے پوری طرح آگاہ تھا۔ خدا جانے یہ میرے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے۔ اور یہ معلومات اسے اپنے محکمے کی طرف سے مہیا کی گئی ہیں یا کسی اور ذریعے سے میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ یہ صرف میرے بارے میں ہی جانتا ہے یا اسے ظہیر وغیرہ کے بارے میں بھی سب معلوم ہے؟ اور اس کے پاس میرے بارے میں موجود معلومات کتنی پرانی یا نئی ہیں؟
اب تو اس کی زبان کھلوانا اور بھی ناگزیر ہو چکا تھا۔ یہ سب جانے بغیر اس ملک میں رہنا تو موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ تاہم اب تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ اس سے وہ سب کچھ اگلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ میں ایک انتہائی مخدوش جگہ اس کی قوت برداشت آزمانے پر مجبور تھا۔ کسی بھی وقت کوئی بھولا بھٹکا انسان وہاں آ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے جان بچاکر وہاں سے بھاگنے کی پڑ جاتی۔ مختصر یہ کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے میرے پاس بہت کم مہلت تھی۔
میں نے جگدیش کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے سنجیدہ اور بے لچک لہجے میں کہا۔ ’’میری بات غور سے سنو مہاشے۔ تم دیکھ چکے ہو کہ یہاں کوئی تمہیں چھڑانے کے لیے آنے والا نہیں ہے۔ اگر کوئی بدنصیب آ بھی گیا تو میں اسے پکڑ کر تمہاری بغل میں بٹھا دوں گا۔ اب میں مزید وقت ضائع نہیں کروں گا۔ پہلا سوال سنو اور فوراً اس کا جواب دو۔ فوراً کا مطلب ہے فوراً…۔ اگر تم ایک لمحہ بھی خاموش رہے تو میں تمہارے دوسرے کاندھے پر بھی گولی مار دوں گا‘‘۔
اس نے احتجاج بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اتنا ظلم نہ کرو۔ میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ اگر کہو تو میں بھگوان کی سوگند…‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرتا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے گال پر زوردار تھپڑ رسید کیا۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ خود میری انگلیاں جھنجھنا گئیں۔ اس کے منہ سے درد ناک چیخ نکلی اور اس نے بایاں ہاتھ شانے کے زخم سے ہٹاکر بے ساختہ گال پر رکھ لیا۔ جس سے اس کا چہرہ خون میں لتھڑگیا۔
اسے سنبھلنے میں خاصی دیر لگ گئی۔ بالآخر اس نے خود پر قابو پالیا اور جارحانہ لہجے میں بولا۔ ’’میں مرجاؤں گا۔ لیکن دیش سے غداری نہیں کروں گا۔ تم مجھے مارنا چاہتے ہو تو شوق سے گولی چلاؤ۔ میری بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاتھ کیوں اٹھاتے ہو؟‘‘۔
اس کی بات سن کر اشتعال میں آنے کے بجائے میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’پہلے ہی تھپڑ میں آنکھوں میں آنسو آگئے دیش پریمی جی؟ ابھی تو میں نے اپنا صرف ٹریلر دکھایا ہے۔ اور کیا تم نے مجھے اتنا بدھو سمجھا ہے کہ گولی سے ہلاک کر کے اپنا شکار ضائع کر دوں گا؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ اپنی زبان بندرکھنے میں کامیاب رہو گے تو یہ تمہاری بھول ہے۔ میں تمہارے ہی خنجر سے باری باری تمہاری دونوں آنکھیں نکالوں گا۔ پھر ساری زندگی سڑکوں پر بھٹکنا اور ہر ٹھوکر پر دیش بھگتی کا نعرہ لگانا!‘‘۔
یہ کہتے ہوئے میں نے تیزدھار خنجر اس کے چہرے کے سامنے لہرایا۔ اس کی آنکھوں میں اچانک خوف کی بدلیاں چھاتی نظر آئیں۔ میں نے گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ایک اور ضرب لگائی۔ ’’دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں پستول کی نال تمہاری دونوں رانوں کی ہڈیوں پر رکھ کر اس طرح گولی چلاؤں گا کہ وہ چکنا چور ہو جائیں۔ تمہیں اتنا تو پتا ہوگا کہ پھر دنیا کا کوئی ڈاکٹر تمہاری ہڈیاں جوڑ کر تمہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں بنا سکے گا۔ اور تمہاری باقی ساری زندگی پہیے والی گاڑی میں سڑکوں پر گھسٹتے اور بھیک مانگتے گزرے گی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post