جمعہ کے مبارک روز نیوزی لینڈ کی سرزمین کو صلیبی دہشت گردوں نے معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا۔ کرائسٹ چرچ نامی شہر کی دو مساجد میں گھس کر دہشت گردوں نے بچوں اور خواتین سمیت اننچاس نمازیوں کو شہید اور پچاس کو زخمی کردیا۔ اس اندوہناک واقعہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں انتہائی غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دنوں قرار دیا ہے۔کرائسٹ چرچ شہر کی میئر لیئین ڈلزیل نے اس المناک واقعہ کے بارے میں کہا ہے کہ آج ہمارا شہر ہمیشہ کے لیے بدل گیا ہے۔ مسلم حکمرانوں میں سب سے پہلے ترک صدر رجب طیب اردگان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس لرزہ خیز واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس کے بعد دیگر عالمی رہنمائوں کی جانب سے بھی اس پر مذمتی بیانات سامنے آئے۔ پولیس نے تین حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا ہے، جن میں ایک عورت بھی شامل ہے۔ ان میں سے ایک دہشت گرد نے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ پولیس کمشنر مائیک بش کے مطابق حملے ڈین ایوینیو پر واقع مسجد النور اور لِن ووڈ مسجد میں پیش آئے۔ حملہ آور جس نے سر پر لگائے گئے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو دکھایا، کی شناخت اٹھائیس سالہ برینٹن ٹارنٹ سے ہوئی ہے۔ پولیس نے اگرچہ مذکورہ دہشت گرد کا اکائونٹ بند کردیا ہے، مگر سوشل میڈیا اس خوفناک فوٹیج سے بھر گیا ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح النور مسجد کے اندر مرد، عورتوں اور بچوں پر انتہائی بے دردی سے اندھادھند فائرنگ کر رہا ہے اور ہر سامنے آنے والے کو موت کی نیند سلا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کی آبادی کا صرف 1.1 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ 2013ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق نیوزی لینڈ میں چھیالیس ہزار مسلمان رہائش پذیر تھے، جبکہ 2006ء میں یہ تعداد چھتیس ہزار تھی۔ سات برسوں میں اٹھائیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سفاح دہشت گرد کا اصل تعلق آسٹریلیا سے ہے، جس کی تصدیق آسٹریلوی حکومت نے بھی کردی ہے۔ اس خونی شخص نے ابتدائی تفتیش میں بتایا ہے کہ وہ اس خطے میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد پر غیظ و غضب کا شکار تھا۔ نیوزی لینڈ میں قائم امن و امان کی مثال دی جاتی ہے۔ مگر اس واقعہ نے وہاں کی سیکورٹی کی قلعی کھول دی ہے۔ عام دنوں کے مقابلے میں جمعہ کے روز مساجد میں بہت زیادہ رش ہوتا ہے، مگر مقامی حکومت نے مسجد کی سیکورٹی کیلئے کسی قسم کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ پھر دہشت گرد اس خونی واردات کو سوشل میڈیا پر لائیو چلاتا رہا۔ یہ سلسلہ پندرہ منٹ تک چلتا رہا، اس نے آتشیں ہتھیار کے کئی میگزین خالی کردیئے، مگر پولیس کا کہیں نام و نشاں نہیں تھا۔ پھر اس مسجد میں بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی نماز پڑھنے آئے تھے، اس کے باوجود بھی مسجد کو سیکورٹی نہ دینا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جس سے متعلق نیوزی لینڈ کی حکومت سے بازپرس ہونی چاہئے۔ مساجد پر حملوں کا سلسلہ پانچ نومبر 644 ء کو محراب رسولؐ میں سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت سے شروع ہوا تھا۔ حالیہ تاریخ میںسب سے خوفناک حملہ نومبر 2017ء کو مصر کی بیر العبد نامی مسجد پر ہوا، جس میں تقریباً ڈھائی سو نمازی لقمہ اجل بنے۔ یورپ اور امریکا میں بھی مسلمانوں کے مراکز پر حملے کوئی نئی بات نہیں۔ ’’مہذب‘‘ ممالک میں مساجد پر حملوں کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ وائس آف جرمنی کے مطابق صرف جرمنی میں گزشتہ ایک برس کے دوران مساجد پر ایک ہزار حملے ہوئے۔ یہ اعداو شمار خود جرمن حکومت نے جاری کئے ہیں، جبکہ آزاد ذرائع ایسے واقعات کی تعداد بہت زیادہ بتاتے ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔مذہبی آزادی، عدم تعصب، انسانی بھائی چارہ، برداشت اور اس جیسے کھوکھلے نعرے صرف مسلمانوں کو سنانے کیلئے ہیں۔ کینیڈا اور امریکا میں بھی مساجد جنونی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ خاص کر جب سے ڈونالڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں، مساجدپر حملوں میں بہت تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وہاں ایک مسجد کو آتش گیر مادے سے جلا کر بالکل راکھ کر دیاتھا۔ تاہم نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے اس اندوہناک واقعہ کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ اس آسٹریلوی سفاح نے ابتدائی بیان میں کہا ہے کہ میں امریکی سیاستدان Candace Owens سے متاثر ہوں۔ یہ امریکی عورت ڈونالڈ ٹرمپ کی حامی، بلکہ اپنے پرو ٹرمپ مؤقف کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ گویا یہ سفاح بالواسطہ ٹرمپ کا مرید ہے۔ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اور اسلام دشمنی پر دنیا گواہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بالکل درست کہا ہے کہ یہ حملہ ہمارے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے، جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ مگر عالمی سطح پر منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ اس طرح کے واقعات میں اگر مسلمان ملوث ہو تو فوراً اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، لیکن اگر مجرم کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو تو اسے ذہنی مریض باور کرایا جاتا ہے۔ مگر اس بار چونکہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے سمیت کچھ عالمی رہنمائوں نے بھی اسے دہشت گردی قرار دیا تو عالمی میڈیا بھی بادل نخواستہ یہی لفظ استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ مرنے والے مسلمان ہیں، اس لئے اسے پیرس واقعہ کے عشر عشیر جتنی بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ یہی وہ دہرا معیار اور منافقانہ طرز عمل ہے، جو دہشت گردی کے خاتمے میں بنیادی رکاوٹ ہے۔عالمی قوتیں اگر واقعی دہشت گردی کے خاتمے اور دنیا میں قیام امن کیلئے مخلص ہیں تو اس واقعہ میں ان کیلئے کئی سبق پنہاں ہیں۔ اب دہشت گردی کی عالمی سطح پر ایک جامع مانع تعریف طے کرنا ہوگی۔ عموماً اہل مغرب ایسے واقعات کو اسلاموفوبیا کا عنوان دیکر ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ دہشت گردی کی بدترین قسم ہے۔ پھر نفرت اور مذہبی تعصب کے خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ الجزیرہ کے مطابق جہاں سوشل میڈیا میں حالیہ واقعہ کی مذمت کی گئی، وہیں سفاح قاتل کو ہیرو قرار دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے جنونی افراد پر کڑی نظر رکھنی ہوگی، ورنہ دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post