پرسکون نیند (حصہ دوم)

0

’’دوسروں کی ٹوہ لگانا، ان کی کھوج میں لگے رہنا یا کسی کی اگر کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے یہ تجسس ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی یا کوتاہی تمہارے علم میں آ جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرو۔ آج کل آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ اس ضمن میں اسلام نے انسان کی آزادی اور حریت کو تسلیم کیا ہے، لیکن اس وقت تک جب تک وہ کھلے عام بے حیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لئے ایذا رسانی کا باعث نہ ہو۔ مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دیدی ہے، جس سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہو گیا ہے۔ غیبت ایک ایسا گناہ ہے، جس میں خواتین اسّی فیصد مبتلا ہیں۔ دو خواتین بیٹھ کر ہمیشہ تیسری کی برائی کرتی ہیں اور اس سے ایسی ایسی باتیں منسوب کرتی ہیں، جو اس میں سرے سے موجود ہی نہیں ہوتیں۔ یہ بہتان ہے۔ غیبت اور بہتان دونوں گناہ ہیں۔ کسی مسلمان بہن بھائی کی دوسرے کے سامنے برائی کرنا ایسا مکروہ فعل ہے، جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آپ میں سے کون یہ پسند کرے گا، مگر غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے، جس سے ہم اور آپ دن رات پیٹ بھر رہے ہیں۔‘‘
نمرہ نے آیات کی تشریح مکمل کی اور قرآن مجید بند کر دیا۔ نمرہ نے گھٹنوں میں سر دیئے نوجوان لڑکیوں کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ لوہا ابھی گرم ہے، چوٹ لگانے کی دیر ہے۔ اس نے شائستہ سے پانی کا گلاس مانگا اور سورئہ نور کی چند منتخب آیات کی تلاوت شروع کی۔ اس کی خوبصورت آواز، دلکش لحن دلوں میں اتر رہا تھا۔ اس نے تلاوت کے بعد سورئہ نور، سورئہ احزاب اور سورئہ نساء کی اہمیت واضح کی کہ یہ تینوں قرآن کی وہ اہم سورتیں ہیں، جن میں عورتوں کے خصوصی مسائل اور معاشرتی زندگی کی بابت اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ہماری بچیاں ہماری ذمہ داری ہیں۔ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا معاشرے کی اور خصوصاً والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچیاں جب گھروں سے نکلیں تو مائوں کا فرض ہے کہ وہ اولاد کو دیکھیں کہ وہ کس طرح، کس لباس میں باہر نکلتی ہیں۔ اسلام میں محض آبرو ریزی ہی بڑا جرم نہیں ہے کہ جس کی سزا سو کوڑے یا سنگسار کرنا ہے، بلکہ کسی کی عزت و آبرو پر اس طرح حملہ کرنا اور کسی عزت مآب خاندان کی تذلیل اور اہانت کا سرو سامان کرنا بھی خدا کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ محض بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت خدا کے نزدیک اتنا بڑا جرم ہے تو جو لوگ رات دن اسلامی معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، فلموں اور ڈراموں کے ذریعے سے بے حیائی پھیلا رہے ہیں، خدا کے نزدیک یہ کتنے بڑے مجرم ہوں گے۔ رات گئے تک ہماری معصوم نسل اس بے حیائی میں مبتلا ہے۔ موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ کے ذریعے شادیوں اور طلاقوں کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ خدا کے نزدیک یہ بے حیائی پھیلانے والے اس کے بہت بڑے مجرم ہیں۔ یہی معاملہ فواحش و منکرات سے بھرپور رسائل اور اخبارات کا ہے، جس کا حسین اور جذباتی چٹ پٹا مواد ہماری نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ اس بے حیائی کے طوفان کو روکنے کے لئے مائوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جوان بیٹی کی ماں کی چار آنکھیں ہوتی ہیں، دو سوتی ہیں اور دو اپنی جوان بیٹی کی عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔ مگر آج کل کی مائوں نے اپنی دونوں آنکھوں کو بند کر لیا ہے اور بچیوں کو بے حساب آزادی بھی دے رکھی ہے۔ مگر اس کے بارے میں ان سے دریافت کیا جائے گا۔ بچوں کی بے راہ راوی کے ذمہ دار صرف اور صرف والدین ہیں اور حدیث مبارکہ کے مطابق (ترجمہ:) ’’تم میں سے ہر شخص راعی (گلہ بان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
سورئہ نور میں ارشاد ہوا کہ ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جائو، جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘ گھروں میں داخل ہونے کے آداب اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو۔ اس آیت میں گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ حدیث نبویؐ سے معلوم ہوا کہ نبی کریمؐ پہلے سلام کرتے، پھر داخل ہونے کی اجازت طلب فرماتے تھے۔ اگر کوئی جواب نہ آتا تو واپس لوٹ آتے۔ یہ بھی آپؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپؐ دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو، جس میں بے پردگی کا امکان رہتا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپؐ نے فرمایا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ آپؐ نے اس بات کو بھی نا پسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب خانہ پوچھے کون ہے تو اس کے جواب میں اپنا نام نہ بتایا جائے۔ اسی سورۃ میں ارشاد ہوا کہ ’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ مسلمان عورتوں کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی آرائش کو کسی پر ظاہر نہ کریں۔ سوائے اپنے محرموں کے اور اس طرح زور زور سے پائوں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے۔ اے مسلمانوں! تم سب خدا کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پا جائو۔‘‘
اس آیت میں زینت سے مراد وہ لباس اور زیور ہے جو عورتیں اپنے حسن و جمال میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے پہنتی ہیں۔ پازیب کی جھنکار یا اونچی ایڑی کی سینڈل کی کھٹ کھٹ جر مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا تیز خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا جائز نہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے جو عورت ایسا کرتی ہے وہ بدکار ہے۔ آپ سب بہنیں اور بیٹیاں مجھے بتائیں آپ میں سے کون یہ الزام اپنے سر لینا پسند کرے گی؟ کوئی بھی نہیں، کیونکہ آپ سب عزت دار گھروں کی عفت مآب بیٹیاں، بہنیں اور مائیں ہیں۔
خدا تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے حسن و کشش رکھی ہے، جس کی حفاظت کے لئے خصوصی ہدایت دی گئی ہے، اسی طرح عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی گئی ہے، جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس لئے خواتین کو غیر مردوں کے ساتھ ایسے لہجے کے ساتھ گفتگو کرنا چاہئے، جو قدرے سخت اور روکھا ہو تاکہ کوئی بد باطن برا خیال دل میں نہ لائے۔ یہ متقی اور پرہیز گار عورتوں کے لئے گھر سے باہر نکلنے کے لئے آداب ہیں کہ اگر بحالت مجبوری گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آ جائے تو بے پردہ ہو کر بنائو سنگھار کر کے دعوت نظارہ دے کر نہ نکلو۔ بنائو سنگھار کر کے باہر نکلنا جاہلیت کی علامت ہے۔ عورتوں کو معاشی جھمیلوں سے اسی لئے دور رکھا ہے۔ فرمانبردار عفت مآب عورتیں شوہر کی غیر موجودگی میں بھی اپنی عزت کی نگہداشت کرنے والی، شوہر کے مال اور اولاد کی نگراں ہوتی ہیں۔‘‘
نمرہ نے اپنی طویل تقریر ختم کی تو کمرے میں بیٹھی ہوئی ہر عورت کے چہرے پر ندامت، شرمندگی کے نمایاں آثار تھے۔ وہ اسٹیج سے اتر کر شائستہ اور زیبا کے پاس بیٹھ گئی۔ خواتین نے نمرہ کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگانا شروع کر دیئے۔ ’’پیاری بہن! آپ کے درس نے ہم سب کی آنکھوں سے روشن خیالی اور آزادی کی پٹی اتار پھینکی ہے۔‘‘
مسز فرحان جو وجیہہ الدین صاحب کی بہن تھیں اور اچھی خاصی ماڈرن تھیں، بڑے بھیگے بھیگے لہجے میں بولیں ’’آپ کا بڑا احسان ہو گا اگر آپ مہینہ میں ایک مرتبہ ہمارے ہاں بھی تشریف لائیں اور ہمارے بچوں کو کچھ قرآن کے بارے میں بتائیں۔‘‘
نمرہ نے عاجزی سے کہا ’’میں کس قابل ہوں۔ اگر آپ کو خدا نے ہدایت کا راستہ دکھا ہی دیا ہے تو میری آپ سے التجا ہے کہ آپ اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف آدھ گھنٹہ قرآن کے ترجمے کے لئے نکال لیں۔ آپ خود محسوس کریں گی کہ آپ کے علم میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ویسے میں آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوں۔‘‘ نمرہ جس مقصد کے لئے اس محفل میں شریک ہوئی تھی وہ پورا ہو چکا تھا۔ اس نے شائستہ اور زیبا سے معذرت کی اور گھر لوٹ آئی۔ اسے یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ کئی راتوں کے بعد آج وہ پرسکون نیند سو سکے گی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More