وطن عزیز کا حالیہ منظر نامہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے حکومت چل رہی ہے نہ معیشت سنبھل رہی ہے۔ تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش اور پنجاب اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کے مطابق حکومتی اور سیاسی لوگوں کو تنخواہوں اور مراعات سے نوازنے کی پالیسی نے ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ جن دوست ممالک سے معیشت کی بحالی کے سلسلے میں توقعات وابستہ تھیں، وہ بھی پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اب تک کامیاب نہیں ہوئے۔ بھارت کی جارحیت سے نمٹنے کا مرحلہ بھی درپیش ہے۔ وزیراعظم عمران خان مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن مغربی تہذیب کی جانب ان کا جھکائو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ عملی طور پر ان کے اپنے اور ساتھیوں کی زندگی کے کسی ایک اقدام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ کسی فلاحی ریاست کی جانب پیش رفت کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں ملک کی سب سے بڑی اور متعدد بار حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کے موجودہ دونوں چیئرمین، آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور اور ان کی لوٹ مار میں شریک اور معاون افراد کے خلاف کئی مقدمات چل رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کا سزائوں سے بچنا ممکن نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے آج تک ملک اور سندھ میں برسراقتدار رہنے والا ان کا خاندان اور سن انیس سو چھیاسٹھ میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کے ساٹھ سال اقتدار، پارلیمان اور سیاست میں گزر چکے ہیں، لیکن مجال ہے جو انہوں نے ملک کے غریب عوام کے لئے کچھ کیا ہو۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے آبائی شہر لاڑکانہ کے لوگ بھی آج تک بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں تو ملک کے دوسرے شہروں اور شہریوں کا کیا مذکور۔ ادھر جنرل ضیاء الحق کے دور سے حکومت اور دولت کے مزے لوٹنے والی مسلم لیگ پر مسلط شریف برادران بھی اکتیس سال سے سیاست میں برسرکار ہیں۔ میاں نواز شریف ملک کے تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ اور ان کے بھائی شہباز شریف سن انیس سو ستتر سے پنجاب حکومت میں آتے جاتے رہے۔ آمریت کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنے والی تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں نے فوجی حکومتوں کی گود میں پرورش پائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان نے اپنا بیٹا قرار دے کر پروان چڑھایا۔ وہ بعد میں جنرل یحییٰ خان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے۔ میاں نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی گود میں پرورش پائی اور سیاست سیکھی۔ اسی طرح عمران خان اور ان کے کئی ساتھی جنرل پرویز مشرف کے حامی و مددگار رہے۔ جب تک ملک میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے، اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے معاملات پوری طرح سامنے نہیں آ سکیں گے، تاہم جہانگیر ترین کی نا اہلی، عمران خان کی بہن علیمہ خان، ان کے ساتھی برابر اعوان اور علیم خان سمیت تحریک انصاف کے کئی افراد قومی احتساب بیورو (نیب) کی زد میں ہیں، جبکہ دوسروں کی بھی جلد باری آنے والی ہے۔
ان حالات میں ملک اور اس کے مظلوم اور بے بس و بے کس عوام کی تینوں بڑی جماعتوں میں سے کسی کو ذرہ برابر بھی فکر نہیں۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے تو عوام کو خیر کی کوئی امید نہیں، لیکن ملک کے محب وطن لوگ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی موجودہ سیاست پر انگشت بدنداں ہیں۔ مسلم لیگ کو وطن عزیز کی خدمت کا سب سے بڑا دعویٰ ہے۔ اسے اب تک یہ زعم ہے کہ وہ پاکستان کی خالق جماعت ہے۔ بلاشبہ مسلم لیگ نے قائداعظم محمد علی جناح کی بے مثال قیادت میں قیام پاکستان کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ اب کہاں ہے؟ آج ملک بھر میں مختلف سابقے اور لاحقے لگا کر درجنوں مسلم لیگیں کام کر رہی ہیں یا یہ سب اسی طرح مسلم لیگ کا نام لے کر دنیا اور عوام کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں، جس طرح پیپلز پارٹی ’’بھٹو‘‘ کا نام استعمال کر کے سیاست کر رہی ہے۔ مغرب کے دلدادہ خاندان ان کی روایات کے مطابق بیوی کے ساتھ شوہر کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں۔ بینظیر صاحبہ نے شادی کے بعد بھی بینظیر زرداری کے بجائے بینظیر بھٹو کہلوانا پسند کیا۔ ان کے بیٹے بلاول کو بھی اپنے نام میں پہلے نانا کا نام بھٹو اور بعد میں زرداری کا نام شامل کر کے بلاول بھٹو زرداری کے نام سے سیاست کرنے کی مجبوری لاحق ہے۔ حُب اقتدار کی اسی خواہش کے تحت مریم صاحبہ کا نام مریم صفدر کے بجائے مریم نواز لیا جاتا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق مریم نواز کو اپنے والد میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جس کا انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے گلہ شکوہ کیا ہے۔ ملک کے تمام معاملات اور عوام کے حالات کو چھوڑ کر مسلم لیگی رہنمائوں اور شریف خاندان کا دنیا میں اب ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ کسی طرح میاں نواز شریف کو جیل سے رہائی دلا کر حسب موقع یا تو لندن فرار کرا دیا جائے یا انہیں ایک بار پھر ملک اور عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کا موقع فراہم کر دیا جائے۔ مریم نواز صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان کے والد نواز شریف کی طبیعت خراب ہے، لیکن انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ میاں نواز شریف کی بیماری کے بارے میں کسی کو شک نہیں، لیکن اول تو ان کا کوئی مرض لا علاج نہیں۔ دوم، ملک میں ان کے ہر مرض کا علاج اور ایک سے ایک ماہر ڈاکٹر موجود ہیں۔ سوم، وہ اگر ملک کے اسپتالوں اور معالجین پر اعتماد نہیں کرتے تو کرپشن اور لوٹ مار سے بھی زیادہ مورد الزام قرار پاتے ہیں کہ انہوں نے اکتالیس سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ایک اسپتال بھی ایسا قائم نہیں کیا جہاں وہ علاج کرا سکیں۔ ساری عمر قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ملک اسپتالوں میں جاتے رہے۔ چہارم، مریم نواز متعدد بار جیل میں اور عدالتوں میں پیشی کے وقت اپنے والد گرامی سے مل چکی ہیں۔ کئی مرتبہ تو پورے خاندان نے ساتھ کھانا کھایا ہے۔ وہ ذرا یہ بتا دیں کہ ملک کی جیلوں میں موجود تمام قیدیوں کو ایسی کوئی سہولت حاصل ہے؟ اگر نہیں تو لوٹ کھسوٹ میں ملوث کسی ملزم کے لئے تمام سہولتوں کا مطالبہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ میاں نواز شریف ضمانت ملنے تک اسپتال جانے اور علاج کرانے سے منکر ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علاج کے بہانے لندن فرار ہونا چاہتے ہیں۔ اسپتال اور جیل میں تمام طبی اور دیگر سہولتیں ملنے کے باوجود میاں صاحب اور ان کا خاندان بیماری کے نام پر جو سیاست کر رہا ہے، اس سے ان کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں، مقبولیت میں زبردست کمی ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post