شہدا کے لواحقین وزارت خارجہ پر برس پڑے

0

محمد زبیر خان
کرائسٹ چرچ کی مساجد میں دہشت گردی کی کارروائی میں شہید ہونے والے نو پاکستانیوں میں سے سات کی تدفین نیوزی لینڈ ہی میں کئے جانے کا امکان ہے۔ کراچی کے سید اریب شاہ اور سید جہاندار علی کی میتیں واپس لائی جائیں گی۔ جبکہ ایک شہید کے خاندان نے حکومتِ پاکستان کی بے رخی کے سبب تدفیق نیوزی لینڈ ہی میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہدا کے لواحقین پاکستان حکومت کی بے رخی اور دفتر خارجہ کی بے حسی پر سخت دل گرفتہ ہیں۔ واضح رہے کہ کرائسٹ چرچ کے سانحے میں کراچی کے ایک ہی خاندان کے تین افراد شہید ہوئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو نیوزی لینڈ میں موجود پاکستان ایسوسی ایشن کیڈبری کے جنرل سیکریٹری سردار فیصل عباس نے بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ چھ پاکستانی شہدا کی تدفیق نیوزی لینڈ ہی میں کی جائے گی، جس کے انتظامات کیوی حکومت کرے گی۔ جبکہ نیوزی لینڈ کے مقامی مسلمان اور پاکستانی کمیونٹی شہدا کی تدفیق مذہبی طریقے سے کرنے میں معاونت کرے گی۔ سردار فیصل عباس کے مطابق اب تک میتیں نیوزی لینڈ کی حکومت کی جانب سے حوالے نہیں کی گئی ہیں۔ ابھی تفتیش کے مراحل جاری ہیں۔ امکان ہے کہ آئندہ ایک دو روز میں میتیں مل جائیں، جس کے بعد شہدا کی تدفیق کردی جائے گی۔ جبکہ جن کو پاکستان پہنچانا ہے، وہ بھجوا دی جائیں گی۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق لاہور کے رہائشی شہید نبیل سہیل کے خاندن نے حکومت کی جانب سے عدم تعاون پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہید بھائی کی تدفیق نیوزی لینڈ ہی میں کروائیں گے۔ جبکہ نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے سید جہاندار علی جن کی فیملی اس وقت لاہور میں ہے، نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ شہید سید جہاندار علی کی تدفیق لاہور میں ہوگی۔
شہدا کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہر چند گھنٹے بعد نیوزی لینڈ سے حکومتی نمائندے فون کرکے بات کرتے ہیں اور مسائل کے حوالے سے پوچھتے ہیں۔ جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا ہے۔ کوئی بھی حکومتی نمائندہ مسائل پوچھنے اور تعزیت تک کرنے کے لئے نہیں پہنچا۔ ان ذرائع کے مطابق حکومت کا رویہ اس طرح ہے، جس طرح وہ اپنے سر سے بوجھ اتارنے کی کوشش کر رہی ہو۔ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے واضح اعلان بھی کیا تھا کہ شہدا کے
خاندانوں کی مدد کی جائے گی۔ مگر یہاں مدد تو کیا کسی نے بات تک نہیں کی۔ ذرائع کے بقول دفتر خارجہ نے جو نمبر دیئے ہیں، ان نمبروں پر کال کی جائے تو پہلے کوئی اٹھاتا ہی نہیں ہے۔ اور اگر اٹھا لے تو ایک اور نمبر دے دیا جاتا ہے کہ اس پر بات کریں۔ شہدا کے خاندانوں نے حکومتی رویے پر انتہائی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
’’امت‘‘ نے دفتر خارجہ میں لواحقین کی شکایات اور معلومات حاصل کرنے کے لئے رابطہ قائم کیا تو ترجمان دفتر خارجہ کے نمبر سے کہا گیا کہ اس حوالے سے خصوصی سیل قائم ہے، اس پر رابطہ قائم کیا جائے۔ جب خصوصی سیل پر رابطہ قائم کیا گیا تو وہاں سے ایک کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر رابطہ کرنے کا کہا گیا۔ کسی نے بھی لواحقین کے موقف پر جواب نہیں دیا اور نہ ہی کوئی بنیادی معلومات فراہم کیں۔
ادھر بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں دہشت گردی کے واقعے میں کراچی کے ایک ہی خاندان کے تین افراد شہید ہوئے ہیں۔ جان بحق ہونے والوں میں والدہ کرم بی بی، والد غلام حسین اور بیٹا انجینئر ذیشان رضا شامل ہیں۔
کرائسٹ چرچ کے سانحے میں شہید ہونے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے انجینئر ذیشان رضا، ان کی والدہ کرم بی بی اور والد غلام حسین کے خاندانی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ علما سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ تدفیق میں مزید تاخیر مناسب نہیں، لہذا جیسے ہی نیوزی لینڈ کی حکومت میتیں حوالے کرے گی، شہدا کی تدفیق نیوزی لینڈ ہی میں کر دی جائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستانی ہیرو نعیم رشید اور ان کے بیٹے طلحہ نعیم کی تدفیق نیوزی لینڈ میں کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کر دیا گیا تھا۔ ان کی والدہ اور بھائی نیوزی لینڈ روانہ ہوچکے ہیں۔
’’امت‘‘ نے متاثرہ خاندان سے رابطہ قائم کیا تو اس خاندان کی واحد بچ جانے والی خاتون الیکڑیکل انجینئر مریم گل نے بتایا کہ انہوں نے شہدا کی تدفین نیوزی لینڈ میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تدفین کے حوالے سے علما سے پوچھا گیا تو سب نے ہی یہ کہا کہ تدفیق میں تاخیر مناسب نہیں ہے۔ جبکہ کرائسٹ چرچ میں موجود پاکستانی کمیونٹی نے بھی تسلی دی ہے کہ وہاں کی مسلم کمیونٹی مذہبی طریقے کے مطابق ان کی تدفیق کرے گی۔ جس پر انہوں نے اجازت دے دی ہے۔ ایک سوال پر مریم گل نے بتایا کہ ’’خواہش کے باوجود میں آخری رسومات میں شرکت سے محروم رہوں گی۔ لیکن جلد جانے کی کوشش کروں گی‘‘۔ رندھی ہوئی آواز میں مریم گل کا کہنا تھا کہ ’’میں نے کئی مرتبہ بھائی ذیشان سے کہا تھا کہ میں پاکستان میں اکیلی ہوں۔ آپ واپس کیوں نہیں آجاتے۔ یہاں پہلے بھی اچھی ملازمت کرتے تھے۔ اب بھی مل جائے گی۔ مگر وہ نہیں مانے۔ وہاں جانے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ دنیا میں رہنے کے قابل جگہ تو صرف نیوزی لینڈ ہی ہے۔ بھائی نیوزی لینڈ کی شہریت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ذیشان پاکستان سے نیوزی لینڈ کی مستقل شہریت کا ویزہ لے کر ہی نیوزی لینڈ گئے تھے ۔ وہاں پر مستقل رہائش رکھنے والوں کو چار سال بعد شہریت دی جاتی ہے۔ ذیشان کو اب شہریت ملنے والی تھی کہ یہ سانحہ پیش آگیا اور میں اپنے بھائی، محبت کرنے والی ماں اور شفقت کرنے والے والد سے محروم ہوگئی‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے والدین جنوری میں ویزٹ ویزے پر نیوزی لینڈ گئے تھے۔ اپریل میں انہوں نے واپس آنا تھا۔ وہ مجھے تنہا چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے۔ مگر ذیشان کے اصرار پر وہ بے بس ہوگئے۔ بھائی والد اور والدہ سے کہتا تھا کہ وہ بھی ان کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ تھوڑے دنوں کے لئے اس کے پاس رہ جائیں گے تو اس سے ان کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس پر وہ مجبور ہوگئے تھے۔ ان کو کیا پتا کہ موت ان کے تعاقب میں ہے اور وہ اس کے بعد کبھی بھی اپنے پیاروں کو نہیں دیکھ سکیں گی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More