وزیر اعظم عمران خان نے سندھ میں ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والی دو نو مسلم لڑکیوں کے مبینہ اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات کی ہدایت کر دی ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کی رحیم یار خان منتقلی کی اطلاعات پر وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ دوسری جانب علمائے کرام نے متنبہ کیا ہے کہ نو مسلم بچیوں کو واپس ہندوئوں کے حوالے کرنا غیر شرعی و غیر آئینی ہو گا۔ ایک اور خبر کے مطابق ڈھرکی سے تعلق رکھنے والی دو نو مسلم بہنوں کو اہل خانہ کے حوالے کرنے کے وزیراعظم عمران خان کے احکام کے بعد پنجاب اور سندھ پولیس کے سرگرم ہونے سے لڑکیاں اپنے تحفظ کے لئے دربدر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ وزیراعظم نے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ہدایات دی ہیں کہ نو مسلم لڑکیوں کو ہر صورت میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا جائے۔ اس معاملے میں وزیراعظم عمران کی خصوصی دلچسپی، نوٹس لینے اور تحقیق و تفتیش کے بجائے ہر صورت میں لڑکیوں کو ان کے خاندان کے سپرد کرنے کے احکام سے یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ملک کے تمام بڑے بڑے مسائل حل کر دیئے ہیں، اس لئے انہیں ایسے چھوٹے کاموں پر توجہ دینے کی فرصت مل گئی ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کے فرائض میں بلاشبہ یہ بات داخل ہے کہ ملک کے ہر شہری کو خواہ اس کا تعلق کسی مذہب، نسل، علاقے یا ذات پات سے ہو، تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنائیں، تاہم مذکورہ واقعے میں انہوں نے جو احکام جاری کئے ہیں، وہ شریعت اسلامی اور ملکی آئین و قانون سے مطابقت نہیں رکھتے، کیونکہ یہ سراسر یکطرفہ ہیں۔ ابھی تو یہ طے ہونا باقی ہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی دونوں لڑکیاں اغوا کی گئیں یا والدین سے جان کا خوف لاحق ہونے کی وجہ سے وہ خود گھر چھوڑ کر گئیں۔ دوم یہ کہ وہ قانونی لحاظ سے بالغ ہیں یا نابالغ۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا یا انہیں جبراً مسلمان کیا گیا۔ اسلام اور پاکستان کا آئین ہر گز یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو بزور طاقت اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ایسی صورت میں مذکورہ لڑکیوں کو بازیاب کرنے کے بعد انہیں جان کا مکمل تحفظ فراہم کر کے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کے پاس یا خاندان میں جانا بھی چاہتی ہیں یا نہیں؟ اگر انہیں اغوا نہیں کیا گیا اور وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں تو انہیں واپس ہندو بننے پر مجبور کرنا یا اپنے خاندان میں بھیجنا سراسر زیادتی اور ظلم ہو گا، جو ان کے قانونی حق کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا عمران خان، ان کی حکومت اور وزراء کو بھارت یا دوسرے بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے لئے کوئی یکطرفہ فیصلہ یا اقدام کرنا انسانی و اخلاقی اصولوں، شریعت اسلامی اور ملکی آئین و قانون سب کے منافی ہے۔
وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، جو پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے بلند بانگ دعوے کے باوجود اصل میں سیکولر نظریات کی حامل ہے، جبکہ سندھ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو لاکھ کہے کہ ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ لیکن گزشتہ نصف صدی کی تاریخ گواہ ہے اس کے کسی رہنما اور کارکن نے اپنی ذات پر اسلام نافذ نہیں کیا تو وہ ملک میں اسلام یا اس کے بنیادی اصولوں کو رائج کرنے اور فروغ دینے میں کیسے کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ سندھ حکومت تو ایک زمانے میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے قبول اسلام پر پابندی کی قانون سازی کرنے کی کوشش کر چکی ہے، جسے علمائے دین اور قانون پسند شہریوں نے ناکام بنا دیا۔ علامہ ڈاکٹر منظور احمد مینگل کے مطابق شریعت کی روشنی میں علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے کی کفالت کا مسئلہ درپیش ہو تو مسلمان اس کے شرعی کفیل ہوں گے اور اگر ملک میں شریعت نافذ ہے اور حکومت اسلامی ہے تو وہ خود اور مسلم معاشرہ اس کی کفالت اور تحفظ کا ذمے دار ہو گا۔ نو مسلم بچیوں کی جو ویڈیوز اور بیانات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ان پر کسی نے جبر نہیں کیا ہے۔ لہٰذا شرعی اور قانونی راستہ یہ ہے کہ سب سے پہلے لڑکیوں کا پتا لگایا جائے۔ پھر انہیں مکمل تحفظ فراہم کر کے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ زبردستی اسلام قبول کرانے سے کوئی مسلمان نہیں ہو جاتا۔ لڑکیوں کی آزاد مرضی کو اہم ترین حیثیت حاصل ہو گی۔ باقی سب بیکار اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ نیوز ایجنسیوں اور برقیاتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں لڑکیوں نے پنجاب ہائی کورٹ کے بہاولپور بینچ میں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے تحفظ کی درخواست دائر کر دی ہے۔ پولیس نے مخصوص ہتھکنڈے اختیار کر کے اپنے مفادات کی خاطر لڑکیوں کے اغوا کا مقدمہ درج کر کے نکاح خواں سمیت بعض افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا پر وزیراعظم عمران خان کے نوٹس اور ان کی بازیابی کے بعد اپنے خاندان کے حوالے کرنے کی ہدایات سے شہ پا کر بھارت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک اور بہانہ مل گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو موصول ہونے والے ایک خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اقلیتوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ پاکستان نے بھارت کو جواب دیا ہے کہ یہ مودی کا بھارت نہیں، جہاں کشمیری باشندوں کا قتل عام جاری رہنے کے علاوہ سکھ اور عیسائی اقلیتیں، یہاں تک کہ دلت ذات کے ہندوئوں کی جان و املاک بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان پر اقلیتوں کے معاملے میں کسی الزام تراشی سے پہلے مودی سرکار آئینے میں اپنا مکروہ اور داغدار چہرہ دیکھے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post