ایک خاتون کا بیٹا طویل عرصے گھر سے غائب رہا۔ ایک دن وہ کھانا کھانے کے لیے بیٹھی، ابھی وہ لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالنے ہی والی تھی کہ ایک فقیر نے دروازے پر کھڑے ہو کر صدا لگائی۔ اس خاتون نے منہ میں جاتا لقمہ وہیں روک کر لقمہ سمیت پوری روٹی فقیر کو دے دی اور خود بھوکی رہی۔ اسے اپنے بیٹے کی بڑی فکر لگی رہتی اور ہمیشہ اس کی واپسی کی دعائیں کرتی تھی۔ اس بات کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک دن اس کا بیٹا صحیح سلامت گھر لوٹ آیا اور پھر ایک دن ماں کو راستے کی سختیوں سے آگاہ کیا۔
اس نے کہا کہ سب سے حیرت انگیز واقعہ مجھے یہ پیش آیا کہ میں فلاں وقت فلاں شہر کے گھنے جنگل میں جا رہا تھا کہ ایک دم سامنے سے شیر نمودار ہوا، میرا گدھا وہیں رک گیا اور مجھے پھینک کر پیچھے کی جانب دوڑا، شیر نے اپنے پنجے میری پیوند شدہ قمیص میں گاڑھ دیئے، تاہم مجھے کوئی خراش تک نہیں آئی، البتہ میرے ہوش اڑ گئے، وہ مجھے گھسیٹتا ہوا درختوں کے جھنڈ میں لے آیا۔
عین اسی وقت جب وہ میرے سینے پر پنجے رکھ کر چیر پھاڑنے ہی والا تھا کہ ایک عظیم الخلقت آدمی نمودار ہوا، اس کا چہرہ روشن اور کپڑے سفید تھے، اس نے شیر کو گردن سے پکڑا اور اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور کہا:
اٹھ، اے کتے! لقمے کے بدلے لقمہ۔
شیر لڑکھڑا کر اٹھا اور جنگل کی طرف بھاگ گیا، میں نے آدمی کو دائیں بائیں خوب ڈھونڈا، مگر کہیں اس کا نشان نہ ملا، میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا رہا، یہاں تک کہ میری کھوئی طاقت واپس آ گئی اور حواس مجتمع ہو گئے، پھر میں نے اپنا جسم ٹٹولا۔ کہیں کوئی زخم یا خراش نہ تھی، میں وہاں سے چل پڑا، یہاں تک کہ اپنے قافلے سے جا ملا، میں نے ان کو اس بارے میں بتایا تو انہیں اس پر بڑا تعجب ہوا کہ میں شیر کے چنگل سے کیسے بچ گیا، میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ نو وارد آدمی کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ’’لقمے کے بدلے لقمہ۔‘‘
ماں نے اس وقت کے بارے میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی وقت تھا جب اس نے اپنے منہ سے لقمہ نکال کر فقیر کو صدقہ کیا تھا۔ چنانچہ اس نے بیٹے کو اس کا مطلب سمجھایا۔ درحقیقت یہ ایک فرشتہ تھا، جسے رب تعالیٰ نے صدقے کی برکت سے اس خاتون کے بیٹے کی مدد کے لئے بھیجا تھا۔ (بحوالہ حیرت انگیز واقعات)
سخاوت کا صلہ مل گیا
امام اصمعیؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں ایک آدمی کے پاس آیا، اس سے پہلے بھی میں اس کے پاس اس کی سخاوت کی وجہ سے آتا رہتا تھا، لیکن اس دن خلاف معمول اس کے دروازے پر ایک دربان کھڑا تھا، جس نے مجھے اندر جانے سے روک دیا اور کہا: بخدا اے اصمعی! میں تجھ جیسوں کو اندر جانے سے روکنے کے لیے آج صرف اس وجہ سے دروازے پر کھڑا ہوں کہ اس کی خستہ حالی اور تنگدستی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی، میں نے کاغذ کا ٹکڑا لیا اور اس پر یہ شعر لکھا:
’’جب کسی سخی کے دروازے پر دربان کھڑا ہو جائے تو اسے کنجوس پر فضیلت نہیں رہتی۔‘‘
میں نے رقعہ دربان کو دے کر کہا: میرا یہ رقعہ اندر پہنچا دو، وہ رقعہ لے کر اندر چلا گیا، تھوڑی دیر بعد وہی رقعہ واپس لے آیا، اس کی پشت پر لکھا تھا:
’’جب سخی کا مال کم ہو جاتا ہے تو وہ پردہ ڈال کر قرض خواہ سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
اس رقعہ کے ہمراہ اس نے ایک تھیلی بھی بھیجی، جس میں پانچ سو دینار تھے، میں نے سوچا کہ چلو آج امیر المومنین کو کوئی تحفہ ہی دے دوں اور اسے یہ قصہ بھی سنائوں، چنانچہ میں ان کے پاس آیا، جب انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا: اے اصمعی! کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے کہا: ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں، جو امیر المومنین کے علاوہ تمام زندہ انسانوں میں سب سے زیادہ سخی ہے، انہوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ میں نے کہا آج جس نے میری مہمانی کی ہے، پھر میں نے انہیں رقعہ اور دیناروں کی تھیلی دی اور گزشتہ واقعہ بھی سنایا، انہوں نے جب تھیلی دیکھی تو ان کے چہرے پر غصہ کے آثار نمایاں ہو گئے، کہنے لگے: اس پر تو بیت المال کی مہر لگی ہے، فوراً اس آدمی کو پکڑ کر میرے حوالے کرو، جس نے تمہیں یہ تھیلی دی ہے، میں نے کہا: بخدا امیر المومنین! مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں آپ کے سرکاری کارندوں کے ساتھ اس پر دھاوا بولوں اور اسے گھبراہٹ میں مبتلا کروں، اس پر انہوں نے اپنے ایک خاص آدمی سے کہا: تم اصمعی کے ساتھ جائو، جب اس آدمی کو دیکھو تو زبردستی کئے بغیر پیار سے کہنا کہ امیر المومنین کے پاس چلو۔
امام اصمعیؒ فرماتے ہیں کہ جب ہم اس آدمی کو پکڑ کر لائے اور اسے امیر المومنین کے سامنے کھڑا کیا تو انہوں نے اس سے کہا: کیا تو وہی نہیں ہے، جس نے کل ہماری سواری کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی خستہ حالی کا ذکر کیا تھا کہ تو زمانے کی سختیوں کا شکار ہو چکا ہے اور ہم نے تجھے ایک تھیلی دی تھی تاکہ تیری حالت بہتر ہو، آج اصمعی ایک شعر لے کر تیرے پاس آیا اور وہ تھیلی تو نے اس کو پکڑا دی؟ اس نے کہا: بخدا میں نے اپنی جس خستہ حالی اور زمانے کی سختیوں کا ذکر امیر المومنین سے کیا تھا، وہ سب صحیح ہے، اس میں کوئی جھوٹ یا فریب نہیں ہے، لیکن مجھے حق تعالیٰ سے حیا آئی، اس لیے میں نے اپنے در پر آنے والے کو اسی طرح واپس کیا، جیسے امیر المومنین نے مجھے واپس کیا تھا۔
امیر المومنین نے کہا: تو کیا خوب جوان ہے، بخدا کسی عرب ماں نے تجھ سے زیادہ سخی نہیں جنا ہو گا۔ پھر امیر المومنین نے اسے ایک ہزار دینار دینے کا حکم دیا، اصمعیؒ کہتے ہیں، میں نے کہا: امیر المومنین! مجھے بھی دیجئے، میری بات پر وہ مسکرائے، پھر میرے متعلق بھی انہوں نے مزید پانچ سو کے ساتھ ہزار پورا کرنے کا حکم دیا اور اس آدمی کو اپنے مخصوص لوگوں میں شامل کر لیا۔(حوالہ بالا)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post