لے آئی پھر کہاں ہم کو قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
کالم لکھا جا چکا تھا کہ نواز شریف کی چھ ہفتوں کیلئے ضمانت بھی منظور ہوگئی، اس ضمانت نے ن لیگ مکمل خوش ہوئی ہو یا آدھی، لیکن یہ خبر پی پی پی کیلئے اچھی نہیں ہے، ایک تو بلاول کا ٹرین مارچ اس خبر کے نیچے دب گیا اور دوسرا نواز شریف کی رہائی کے نیچے پی پی پی کے کچھ رہنما بھی دبتے نظر آرہے ہیں، کیوں کہ آخر توازن بھی کوئی چیز ہے۔ خیر اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔ بلاول کا ٹرین مارچ دیکھ کر اور ان کے آج کل کے خطاب سن کر قوم کو لگتا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے، جہاں سے وہ ایک ڈیڑھ برس پہلے گزر چکی ہے، بس ڈرائیور بدلے ہوئے ہیں، کل ن لیگ کو احتساب کے شکنجے میں کسے جانے کا شکوہ تھا اور آج پیپلز پارٹی اس کی شکایتوں کا دفتر کھولے بیٹھی ہے، مقصد سفر بھی وہی ہے اور طریقہ سفر بھی وہی آزمایا جا رہا ہے، یہ دیکھے بغیر کہ یہ طریقہ ن لیگ جیسی مضبوط جماعت کیلئے مدد گار ثابت نہیں ہو سکا تو پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہوگی، جس کی کل سیاسی متاع اب اندرون سندھ کے چند اضلاع ہیں۔ ن لیگ کے پاس تو پنجاب تھا، جہاں پیدا ہونے والی حرارت بہت دور اور گہرائی تک محسوس کی جاتی ہے، جہاں میڈیا فوکس کرتا ہے، کیوں کہ اسے مارکیٹ ملتی ہے، پھر میڈیا میں ن لیگ کا اثرو رسوخ بھی ایسا تھا کہ آج تک کسی اور سیاسی جماعت کے حصے میں اتنا اثر نہیں آیا، نواز شریف مقبول بھی تھے اور بھاری بھرکم رہنما بھی، ملک میں ہی نہیں بیرون ملک بھی ان کی ایک شناخت تھی، پاکستان کے دوست ممالک میں وہ ذاتی دوستیاں بھی رکھتے تھے، لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ والا انجام ہوا اور آج میاں نواز شریف طبی بنیادوں پر ضمانت پر باہر آئے ہیں اور وہ بھی صرف چھ ہفتوں کے لئے۔ اس دوران بھی وہ ظاہر ہے سیاست سے دورر ہیں گے، کیوں کہ اگر انہوں نے طبی بنیادوں پر ضمانت کرانے کے بعد سیاست کی تو ان کی ضمانت کی بنیاد ختم ہو جائے گی۔ نواز شریف جیسے مضبوط اور بڑے قد کاٹھ والے رہنما ڈیڑھ برس کے قلیل عرصے میں مجھے کیوں نکالا سے مجھے نکالو تک آگئے، لیکن اس کے باوجود پی پی پی قیادت نہ جانے کس پرتے پر ن لیگ والی قسط دہرانے چلی ہے، اگر ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا والا معاملہ ہے تو پھر بھی یہ سیاسی طور پر فائدے والا نسخہ نہیں ہے، کیوں کہ نواز شریف اگر مجھے کیوں نکالا کی طرف نہ جاتے، اپنے بھائی کی بات مان لیتے ،تو شاید آج انہیں اس نہج پر نہ آنا پڑتا کہ وہ طبی بنیادوں پر ضمانت کیلئے استدعا کر رہے ہوتے۔
صرف یہی نہیں ہے، بلاول گفتگو میں بھی ن لیگ کا فلاپ ماڈل اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ن لیگ نے ڈان لیکس جیسی ناکام مہم جوئی کی تھی تو بلاول اس سے دو قدم آگے جاکر بھارتی طیاروں کے حملے کی باتیں کر رہے ہیں، نہ جانے کون لوگ ہیں، جو اس کے باوجود ان کے والد آصف زرداری کو ہوشیار سیاستدان سمجھتے ہیں، حالاں کہ انہوں نے پانچ برس وفاق میں حکومت کرکے پورے ملک میں پارٹی کا مکو ٹھپ دیا اور اب بیٹے کا کارڈ وہ بغیر کھیلے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر ضائع کرنے پر تلے نظر آتے ہیں، اسی لئے کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ورنہ کون یہ نہیں جانتا کہ اگر کوئی رہنما ریاست کیلئے ناپسندیدہ قرار پاجائے، تو اس کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں رہتا، پھر اس پر کوئی بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا، لیکن یہاں تو ریاست کو بلیک میل کرنے کا ن لیگی ناکام تجربہ دہرایا جا رہا ہے۔ نواز شریف کو بھی تحریک چلانے عدلیہ سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک ہر ایک کو للکارنے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی اور اس وقت تو ان کے حامیوں کو یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ بس نواز شریف اب سب کچھ گرا کر آجائیں گے، حالاں کہ اصل میں نواز شریف کو تھکایا جا رہا تھا اور جب وہ تھک گئے، جب جلسے کر کرکے اکتا گئے، تو پھر اڈیالہ جیل ان کا مقدر ٹھہری، وہ اپنے کچھ خوشامدی ساتھیوں کی وجہ سے ’’انقلاب‘‘ کے خواب دیکھتے ہوئے لاہور پہنچے تو وہاں ان کے استقبال کیلئے اتنے لوگ بھی موجود نہ تھے کہ ایئر پورٹ پہنچنا تو دور کی بات، وہ پولیس کے ساتھ کوئی رنگ ہی جما دیتے۔ کوئی اچھی خبر ہی بنوا پاتے۔
پی پی پی اور ن لیگ گزشتہ تین سے چار دہائیوں سے ملکی سیاست پر راج کر رہی ہیں۔ پی پی پی میں تیسری اور ن لیگ میں دوسری نسل آگئی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اس قابل بھی کیوں نہیں ہوئیں کہ کوئی تحریک چلا سکیں؟ یہ سوال لوگ اکثر اٹھاتے ہیں، تو ہمارے خیال میں اس کی وجہ یہ دونوں جماعتیں خود ہی ہیں، ان کا طرز سیاست ہے، اول تو دونوں جماعتیں جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آتی ہیں، لیکن ان کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، وہاں بس نامزدگی چلتی ہے، جس کے پیچھے ذاتی پسند و ناپسند یا پھر مفادات ہوتے ہیں، دونوں جماعتوں کی تنظیم بھی ایسی ہے کہ اس کی بنیاد بھی تنظیم کے بجائے تعظیم لگتی ہے، کسی بھی ملک میں سب سے متحرک متوسط طبقہ ہوتا ہے، پی پی پی نے تو اس طبقے کو اپنے زیر اثر علاقوں میں پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ اندرون سندھ اسی لئے کہتے ہیں کہ یا تو غریب ہیں یا پھر وڈیرے اور بیوروکریسی میں شامل خاندان، جو جائز و ناجائز طریقوں سے مال بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی نظریہ وڈیروں کے ذریعے حکومت کرنے کا ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وڈیرے تو اقتدار کے ساتھ ہوتے ہیں۔ آج سندھ میں پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو دیکھئے گا کہ پی پی پی سے یہ لوگ کیسے منہ پھیرتے ہیں۔ یہ پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ جام صادق سے لے کر مظفر شاہ اور ارباب رحیم تک، اب بھی وقت آیا تو ایسا ہی ہوگا۔ ن لیگ کی بنیاد ابتدا میں متوسط طبقہ ہی تھا اور اب بھی اس کی حمایت اس طبقے میں پائی جاتی ہے، لیکن گزشتہ حکومت میں اس نے بھی متوسط طبقے اور اس کی ضروریات و خواہشات کو اہمیت نہ دی، جس کا نتیجہ وہ آج بھگت رہی ہے۔ ن لیگ کو سب سے زیادہ نقصان متوسط طبقے کی حمایت کم ہونے سے ہی ہوا ہے، اس کی جگہ تحریک انصاف نے پنجاب کے متوسط طبقے میں اپنی جگہ بنالی۔ تحریک انصاف نے احتساب کو ایشو بنایا، تو اس میں متوسط طبقے کیلئے کشش تھی، کیوں کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ کرپشن کی وجہ سے اسے مہنگائی اور دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ ن لیگ کو اس پر توجہ دینی چاہئے تھی، وہ اپنا نہ سہی پیپلز پارٹی کا ہی احتساب کرتی، رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لئے کچھ تو کرتی، لیکن اس نے احتساب کے مطالبے کو تحریک انصاف کا سمجھ کر نظر انداز کیا اور یوں اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہی ہے، کیوں تحریک انصاف احتساب کی اکیلی مالک بن گئی۔ اب بھی آپ دیکھیں، متوسط طبقے کے لوگوں سے بات کریں تو تحریک انصاف حکومت کی غیر متاثر کن کارکردگی کے باوجود وہ اس سے احتساب کے حوالے سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ سچی یا جھوٹی انہیں یہ امید ہے کہ کرپشن کم ہوگئی تو ان کے مسائل حل ہو جائیں گے، جب متحرک طبقے میں ایسا بیانیہ جگہ رکھتا ہو تو ایسے میں احتساب سے بچنے کے لئے تحریک چلانے کی کوشش کا انجام وہی ہو سکتا ہے، جو ن لیگ کا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭