محمد قیصر چوہان
سرفراز احمد کے متبادل کے طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے صوبہ خیبرپختوان کے تاریخی شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں انہیں ورلڈکپ اسکواڈ کی تیاری سے قبل آزمانے کیلئے آسٹریلیا کے خلاف کھلایا گیا۔ اس سیریز کے دوسرے ون ڈے میں انہوں نے سنچری بناکر بطور وکٹ کیپر بیٹسمین اپنی اہلیت منوالی ہے۔ جبکہ پہلے او ڈی آئی میں بھی وہ ففٹی بناچکے ہیں۔ اس کارنامے کے بعد چیف سلیکٹر انہیں ورلڈکپ اسکواڈ کا حصہ بنانے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ امارات روانگی سے قبل محمد رضوان سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ایک ملاقات میں ہونے والی گفتگو قارئین ’’امت‘‘ کی خدمت میں حاضر ہے۔
’’میرے آبائو اجداد کا تعلق فاٹا (فیڈرلی ایڈمنسٹریٹر ایئریاز) کے خوبصورت گائوں جناح کوٹ سے ہے۔ ہمارا قبیلہ آفریدی ہے۔ میرے دادا کا نام خان فیروز خان جبکہ والد محترم کا نام اختر پرویز ہے۔ ہماری رہائش پشاور شہر کے معروف علاقے رمدار بازار بیر سکو کے محلہ صنوبر خان مسلم آباد نمبر 3 میں ہے۔ میرے دادا خان فیروز خان صاحب پولیس اسپتال پشاور میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جبکہ میرے والد محترم اختر پرویز صاحب پولیس اسپتال پشاور میں بطور اسٹور کیپر کام کررہے ہیں۔ میرے چچا محمد نوروز خان بھی پولیس اسپتال پشاور میں ملازمت کرتے ہیں وہ ڈسپنسر ہیں۔ میں یکم جون 1992ء کو پشاور میں پیدا ہوا۔ تین بھائی اور تین بہنوں میں میرا نمبر تیسرا ہے۔ مجھے گھر والے پیار سے ’’زی‘‘ کی عرفیت سے پکارتے ہیں۔ میں نے نیو کیمبرج پبلک اسکول سے نرسری کلاس سے لے کر 8 ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پاکستان پبلک اسکول میں داخلہ لے لیا اور نویں اور 10 ویں کلاس کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں ایڈمشن لے لیا لیکن کرکٹ کی بڑھتی ہوئی مصروفیات کی وجہ سے گریجویشن نہ کر سکا۔ نومبر 2013ء میں شادی کی۔ اب میں بڑی خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں۔ کرکٹ کھیلنے کا شوق تو بچپن ہی سے ہے۔ محلے کی ناہموار گلیوں سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ ان دنوں کرکٹ کا بیٹ میرے قد سے بڑا ہوا کرتا تھا۔ 6 برس کی عمر میں کرکٹ کا بیٹ تھام لیا تھا۔ جب کرکٹ کے کھیل کی سمجھ بوجھ آئی تو اپنے محلے کی ٹیم شہباز الیون کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ میں اس ٹیم کے ساتھ 12 ویں پلیئر کے طور پر منسلک تھا۔ میرا کام ٹیم کا سامان سائیکل پر رکھ کر گرائونڈ تک لے جانا اور پھر میچ کے دوران اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو پانی پلانا تھا۔ مجھے اس ٹیم کی طرف سے صرف تین میچ ہی کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ ان دنوں مجھے ایڈم گلگرسٹ کی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ بے حد پسند تھی۔ میں اپنے اسکول کے دوستوں کے ساتھ بریک ٹائم کے دوران ہونے والے میچ میں وکٹ کیپنگ کیا کرتا تھا۔ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر پولیس آفیسر یا ڈاکٹر بنوں۔ لیکن مجھے صرف اور صرف کرکٹر بننے کا شوق تھا جبکہ میرے والد کو کرکٹ کا کھیل سخت نا پسند تھا۔ ایک دن کرکٹ کھیل کر جب میں زخمی ہوا تو ابو سے خوب ڈانٹ پڑی اس کے بعد ابو نے میرے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی۔ لیکن چوری چھپے گھر سے باہر نکل کر کرکٹ کھیلنے چلا جاتا تھا۔ جب بھی وہ مجھے سامان منگوانے باہر بھیجتے تو کرکٹ کھیلنے لگ جاتا۔ ایک مرتبہ میرے ابو طیش میں آگئے میرا کٹ بیگ چھت پر لے جا کر آگ لگا دی۔والد کی شدید مخالفت کے باوجود کرکٹ نہیں چھوڑی۔ میرے رونے دھونے کے بعد میرے دادا نے کچھ پیسے دیئے تو میں نے بازار سے اپنے لیے نئی کٹ خریدی، نوعمری میں بڑھتے جنون نے مجھے باغی کردیا۔ میرے والد میری نافرمانی سے بیزار آگئے تھے انہوں نے مجھے سمجھنا چھوڑ دیا۔ پھر میں نے موقع کا بھرپور فائدہ آٹھائے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔جب میں پہلی مرتبہ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا تو لوگوں نے میرے کھیل کی بڑی تعریف کی۔ اس کے بعد والدین نے کرکٹ کھیلنے سے منع نہیں کیا اور کرکٹ کے کھیل کو بطور پروفیشن بنانے کی اجازت دیدی۔ اس کے بعد مئی 2005 ء کو میں نے صدر کرکٹ اکیڈمی کو جوائن کیا تھا۔ میں نے ہارڈ بال سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز بطور ون ڈائون بیٹسمین کی حیثیت سے کیا تھا۔ اکیڈمی میں وکٹ کیپر کی غیر موجودگی میں کوچ نے مجھے ذمہ داری دیدی۔ اس کے بعد سے میں نے وکٹ کیپنگ گلوز سنبھال لئے اور سخت محنت کرنا شروع کر دی۔ 2007ء میں صدر کرکٹ اکیڈمی کو خیر باد کہہ کر شمع کرکٹ کلب کو جوائن کر لیا۔ہمارا گھرانہ کافی مذہبی ہے۔ میرا بڑا بھائی عالم دین ہے۔ اس لیے ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔ لیکن میرے دادا کرکٹ کیلئے اپنے کمرے میں ٹی وی لائے تھے۔ پاکستان یا آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے میچز اپنے دادا کے ساتھ ٹی وی پر دیکھتا تھا۔ ایک دن جب میرے پاس اکیڈمی کی فیس دینے کیلئے پیسے نہیں تھے تو دادا نے بولا بیٹا یہ ٹی وی بیج دے۔ کرکٹر بن کر مجھے واپس نیا ٹی وی دلاکر دینا۔ پھر 21 انچ کا ٹی وی 3200 روپے میں بازار جا کر فروخت کرکے اکیڈمی کی رقم ادا کی۔ کلب کرکٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے صلے میں مجھے پشاور کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ میں نے 2007ء میں انٹرڈسٹرکٹ انڈر 19 کرکٹ چمپئن شپ میں پشاور کی نمائندگی کی۔ میں نے انٹر ڈسٹرکٹ انڈر 19 کرکٹ چمپئن شپ میں نوشہرہ کے خلاف ڈیبیو کیا اور صرف 13رنز ہی بنا سکا۔ اگلہ معرکہ چارسدہ کے خلاف تھا، میں نے شاندار سنچری اسکور کی 112 رنز بنا کر اپنی سلیکشن کو درست ثابت کر دیا۔ پھر سوات کے خلاف میچ میں 97 رنز بنائے۔ اسی برس پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کیلئے ٹرائلز ہوئے تو میں نے بھی ٹرائلز دیئے اور عمدہ پرفارم کر کے پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا۔ جونیئر قومی ٹیم نے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کھیلنی تھی۔ میرے علاوہ قومی انڈر 19 ٹیم میں احمد شہزاد، عمر اکمل، شرجیل خان، شاہ زیب حسن، عثمان صلاح الدین، حماد اعظم، عمر امین، عمیر اور علی اسد شامل تھے۔ منصور رانا صاحب ٹیم کے کوچ تھے۔ میں مڈل آرڈر بیٹسمین کی حیثیت سے کھیلا تھا۔ علی اسد وکٹ کیپر تھا۔میرا پہلا ادارہ پپکو (واپڈا) تھا۔ مجھے تیسرا گریڈ ملا تھا۔ میری تنخواہ 11ہزار روپے لگی تھی۔ واپڈا کو 2009ء میں جوائن کیا تھا۔سوئی گیس کو جوائن کیا تو مجھے باسط علی جیسے مخلص ترین شخص کی کوچنگ میں کرکٹ کے بارے میں وہ باتیں سیکھنے کا موقع ملا جو میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ باسط بھائی، مصباح الحق بھائی، حفیظ بھائی، توفیق عمر بھائی، اظہر علی بھائی، عدنان اکمل بھائی اور عمر اکمل بھائی نے میری مکمل سپورٹ کی اور مجھے بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ میں مزید نکھار پیدا کرنے کے حوالے سے مفید مشورے دیئے۔ جن پر عمل کرنے سے میرے کھیل میں نکھار پیدا ہوا۔ سوئی گیس کی طرف سے مجھے واپڈا کے خلاف میچ کھلایا گیا تھا۔ میں نے 69 رنز کی اننگ کھیلی تھی۔ اس کے بعد نیشنل بینک کے خلاف 93 رنز اور اسٹیٹ بینک کے خلاف شاندار سنچری اسکور کی تھی۔ مجھے سوئی گیس کی طرف سے جب بھی میدان میں اترنے کا موقع ملا تو میں نے عمدہ پرفارم کیا۔2010ء میں متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کھیلی گئی تھی۔ پاکستان اے ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف پریکٹس میچ کھیلا تھا۔ میں پاکستان کی اے ٹیم کی طرف سے بطور وکٹ کیپر بیٹسمین کھیلا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی انڈر 23 ایمر جنگ کرکٹ ٹیم میں شامل ہوا اور سنگا پور میں ٹورنامنٹ کھیلا۔ 2013ء میں سنگاپور میں ہم لوگ انڈیا سے انڈر 23 ایمرجنگ ٹرافی کا فائنل ہار گئے تھے۔جب میں نے سوئی گیس کی ٹیم کو جوائن کیا اور پھر ملنے والے مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے کا موقع ضرور ملے گا۔2012ء میں جنوبی افریقہ کے ٹور کیلئے قومی ٹیم کا اعلان ہوا تو میرا نام ریزور پلیئرز میں شامل تھا۔ اس کے بعد 2013ء میں مجھے میرے کزن نے ٹیلی فون کر کے اطلاع دی کہ رضوان بھائی آپ کا نام ویسٹ انڈیز کے ٹور پر جانے والی پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا ہے تو میں بہت زیادہ خوش تھا۔ اس وقت جو میرے احساسات اور جذبات تھے وہ بیان سے باہر ہیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے نوافل ادا کئے تھے۔ میں ٹیسٹ کرکٹ، ون ڈے کرکٹ اور ٹی 20 کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کا نمبر ون وکٹ کیپر بیٹسمین بننا میرا اولین ہدف ہے۔وکٹ کیپنگ سخت جاب اس لیے ہے کہ آپ ایک گیند پر بھی آرام نہیں کر سکتے ہیں۔ فرسٹ کلاس کا چار روزہ میچ ہو یا پھر ٹیسٹ میچ میں وکٹ کیپر کو ہر حال میں90 اوورز تک اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے اور تقریباً آپ کو 540 مرتبہ اٹھک بیٹھک کرنا پڑتی ہے اور پھر یہ کام اس وقت مزید مشکل ہو جاتا ہے جب آپ کو مختلف قسم کے بائولرز پر وکٹ کیپنگ کرنا پڑتی ہے۔ دن بھر آپ سخت محنت کر کے چار کیچ کر لیں اور شام کو آخری اوور میں صرف ایک کیچ غلطی سے گر جائے تو یہ گرا ہوا کیچ ساری کارکردگی پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے مقابلے میں ون ڈے اور ٹونٹی 20 کرکٹ میں تو وکٹوں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلسل بھاگنا پڑتا ہے اور یہ چیز بڑی مشکل ہوتی ہے۔ وکٹ کیپر ایک پل کیلئے بھی ریلیکس نہیں ہو سکتا۔ سرفراز بھائی مجھے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں سوچھا کہ ان کی موجودگی میں میرا چانس نہیں بن سکتا۔ سلیکٹرز نے آسٹریلیا کے خلاف مجھے آزمایا اور ان کی توقعات میں پورا اترا۔ اب دلی خواہش ہے کہ آئی سی سی ورلڈکپ 2019ء میں قومی ٹیم کا حصہ بنوں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post