خوف اور عذاب کے سائے

0

ریاستی اداروں کے کھیل کا کوئی جواب نہیں، وہ اپنی ضرورتوں اور مفادات کے تحت کسی برسراقتدار شخص کو کبھی آگے بڑھاتے ہیں اور کبھی واپس کھینچ لیتے ہیں۔ اٹھانے، گرانے کا یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ اگر یہ سب کچھ ملک و قوم کے وسیع تر مفادات میں ہوتا یا اس سے عام لوگوں کو معمولی فائدہ بھی پہنچتا تو شاید اعتراض کی زیادہ گنجائش باقی نہ رہتی۔ حکمران ٹولوں کو ملنے والی سہولتوں کا عشر عشیر بھی ملک کے بائیس کروڑ عوام کے حصے میں آجاتا تو آج وہ انہیں سیاستدانوں اور نوکر شاہی کو دعائیں دے رہے ہوتے۔ مقتدر طبقے کے کسی کو ذرا چھینک آجائے تو اس کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کو انصاف اور انسانی ہمدردی کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ کسی جرم میں ماخوذ کوئی بڑا آدمی قید کی سزا کاٹ رہا ہو، تب بھی اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر اسے جیل سے باہر آکر اپنی مرضی کے مطابق علاج کرانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے محترم قانون دانوں اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند لوگ ایسی کوئی سہولت یا اجازت دیتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں ہر سال ہزاروں قیدی مناسب غذا اور علاج کی سہولت نہ ملنے اور جبر و تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بے شمار قیدی تو عدالتوں میں اپنی پیروی سے قاصر ہونے کی وجہ سے جیل ہی میں سڑتے رہتے ہیں اور وہیں اپنی جانیں، جان آفریں کے سپرد کردیتے ہیں۔ ان کے لیے کسی کو آئین و قانون اور انصاف و ہمدردی یاد آتی ہے نہ آخرت میں جوابدہی کا تصور انہیں لرزہ براندام کرتا ہے۔ اس کے برعکس کئی لوگ ایسے ہیں جو قید میں بھی نہایت ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزارتے ہیں، وہ اپنی خوش خوراکی کا وہاں اہتمام نہ پاکر شکوے شکایتیں کرتے ہیں، ان کے پاس قوم کی بے حد و حساب لوٹی ہوئی دولت ہو اور وہ کروڑوں روپے کے وکیل کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ابتدا میں وہ اپنا، اپنے مؤکل کا، عدالت کا اور رقوم کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کرتے ہوئے تاخیری حربے اختیار کرتے ہیں۔ پھر آئین و قانون کی ایسی ایسی شقیں اور نکتے نکال کر لاتے ہیں جن کے مطابق ان کا مؤکل اس طرح بے گناہ اور معصوم نظر آتا ہے جیسے وہ آج ہی دنیا میں آیا ہو، لہٰذا اس سے کوئی جرم سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے سزا یافتہ مجرم میاں نواز شریف کے لیے چھ ہفتوں کی طبی بنیاد پر ضمانت کی منظوری کے بعد وہ منگل کو رہا کر دیئے گئے۔ چند سو کارکنوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا، بھنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کیں تو اس کا انہیں حق پہنچتا ہے، لیکن شکرانے کے نفل پڑھنے کو کیا کہ جائے؟ کیا اللہ تعالیٰ انسانوں کے اقوال و اعمال سے بے خبر ہے۔ نہیں، بلکہ وہ تو ان کے دلوں کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے جذبات و خیالات بھی جانتا ہے۔ میاں نواز شریف کی رہائی سے ملک بھر کی جیلوں میں قید ہزاروں ملزمان اور مجرمان، جن میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں، شدید احساس محرومی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ کاش انہوں نے بھی اتنے بڑے بڑے ڈاکے ڈالے ہوتے اور قومی خزانے کو مال غنیمت سمجھ کر بری طرح لوٹا ہوتا تو انہیں بھی اعلیٰ سے اعلیٰ وکیل کرائے پر مل جاتا، جو قانون کی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آزاد فضاؤں کی چند روز ہی کے لیے سیر کرادیتا۔ میاں نواز شریف کو بہترین طبی سہولتیں ملنے کے باوجود ان کے وکیل کا بیان ہے کہ میرے مؤکل کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
دوسری جانب ملک کے دوسری بڑی پارٹی کے ایک دھڑے کے چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے سمیت اپنے عزیز و اقارب اور دوست سب کی عزت داؤ پر لگا کر اپنے ہونہار فرزند بلاول بھٹو زرداری کو سیاست کے میدان میں کھلا چھوڑ دیا ہے۔ بلاول بار بار کالعدم مذہبی جماعتوں اور شدت پسند تنظیموں کا ذکر کر کے قوم کو ڈرا رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ انہیں اس قسم کے بیانات دینے پر مجبور کیا جارہا ہے تاکہ اپنی ماں بینظیر بھٹو کی طرح انہیں بھی دہشت گردی کے نام پر راستے سے ہٹا دیا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس کا احساس ہے یا نہیں لیکن ان سے ہمدردی رکھنے والے ان کے والد گرامی کے بارے میں بوجوہ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ کیوں کہ تاریخ عالم میں اپنے اقتدار کی خاطر باپ بیٹے ایک دوسرے کو اپنی راہ کا پتھر سمجھ کر ہٹانے یا بھائیوں کے درمیان کشت و خون کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ پچیس مارچ سے کراچی سے ٹرین مارچ کا آغاز کرنے والے بلاول نے بعد میں اسے کئی نام دیئے۔ آخر میں جو نام سامنے آیا، وہ ’’کارروان بھٹو‘‘ ہے، جس پر مخالفین نے بھبتی کسی کہ ایک طرف ان کا یہ ’’ابو بچاؤ مارچ‘‘ ہے تو دوسری جانب مریم نواز صفدر بھی ایک مدت سے ’’ابو بچاؤ‘‘ مہم چلا رہی ہیں۔ اس مارچ میں بھی وہ عوام یا کم ازکم اپنے کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی کوئی واضح پیغام دینے کے بجائے یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ یہ کیسا نظام ہے، جس میں کالعدم تنظیموں کے لیے این آر او ہے تو سیاستدانوں کے لیے احتساب، انتقام اور جیل ہے۔ انہوں نے نیب پر بھی زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پسند کی حکومتیں بنانے اور چلانے کے لیے اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو ابھی کم عمر اور نو آموز سیاستدان ہیں، ان کی زندگی کا بڑا حصہ تہذیب مغرب کی آغوش میں گزرا ہے۔ وہ جس نظام کو برا کہہ رہے ہیں، وہ ان کے نانا کے لائے ہوئے آئین کے مطابق چل رہا ہے۔ اسی کے تحت ان کی والدہ اور والد گرامی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور انہوں نے اپنے مفادات سے بڑھ کر سسٹم میں مثبت تبدیلیوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر کے بعد آصف علی زرداری نے جو مال و دولت سمیٹا اور جائیداد و املاک بنائیں، انہی کی بنیاد پر تو بلاول بھٹو زرداری نہ صرف عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کی بدترین نااہلی اور اقتصادی ناکامیوں کے باعث میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو کے جلسے جلوسوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ تو غور کا مقام یہ ہے کہ وطن عزیز کے بائیس کروڑ عوام آج بھی خاموشی سے ان کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ چند ہزار پرجوش کارکنوں کے مقابلے میں بائیس کروڑ عوام کی خاموشی اور صبر و برداشت پر کبھی تو رب ذوالجلال کو رحم آئے گا اور اپنے بے پنا مظالم کے باوجود خود مظلوم بننے والے لٹیرے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اس وقت وہ پلٹ کر دیکھیں گے تو صرف خوف اور عذاب کے سائے ان کا پیچھا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More