معارف و مسائل
اسلامی قانون نے ایک طرف تو شخص ملکیت کا اتنا احترام کیا کہ ایک شخص کے مال کو اس کی جان کے برابر اور جان کو کعبہ کی حرمت کے برابر قرار دیا۔ اس پر کسی کے ناجائز تصرف کو شدت سے روکا اور دوسری طرف جو ہاتھ ناجائز طورپر اس کی طرف بڑھا، وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا، تیسری طرف ایسے تمام دروازے بند کردیئے کہ قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی چیزوں پر کوئی خاص شخص یا جماعت قبضہ کرکے بیٹھ جائے اور عوام کو محروم کردے۔
کسب و اکتساب کے مروجہ طریقوں میں سود، سٹہ، جوا، ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے ذریعے دولت سمٹ کر چند افراد و اشخاص میں دائر ہو کر رہ جاتی ہے، ان سب کو حرام قرار دے کر تمام معاملات تجارت اور کریہ داری وغیرہ میں ان کی جڑ کاٹ دی اور جو دولت کسی شخص کے پاس جائز طریقوں سے جمع ہوئی، اس میں بھی غریبوں، فقیروں کے حقوق، زکوٰۃ، عشر، صدقہ فطر، کفارات وغیرہ مقررہ فرائض کی صورت میں اور اس سے زائد رضاکارانہ صورت میں قائم فرما دیئے۔ اور ان سب اخراجات کے بعد بھی جو کچھ انسان کے مرنے کے وقت تک باقی رہ گیا، اس کو ایک خاص حکیمانہ اصول کے مطابق تقسیم کر دیا کہ اس کا حقدار اسی مرنے والے روشتہ داروں کو اقرب فالاقرب کے اصول پر بنایا، اس کو عام فقراء میں تقسیم کرنے کا قانون اس لئے نہ بنایا کہ ایسا ہوتا تو مرنے والا اپنے مرنے سے پہلے ہی اس کو جا و بے جا خرچ کرکے فارغ ہونے کی خواہش طبعی طور پر رکھتا، اپنے ہی خویش و عزیز کو ملتا دیکھ کر یہ داعیہ اس کے دل میں پرورش نہ پائے گا۔
یہ طریقہ کسب و اکتساب کے عام مروجہ طریقوں میں اکتناز دولت سے بچانے کا اختیار کیا، دوسرا طریقہ دولت حاصل ہونے کا جنگ و جہاد ہے، اس سے حاصل ہونے والے اموال میں وہ تقسیم شرعی جاری فرما دی، جس کا ذکر کچھ سورئہ انفال میں گزرا ہے اور کچھ اس سورت میں بیان ہوا۔ کیسے بے بصیرت ہیں وہ لوگ، جو اسلام کے اس منصفانہ، عادلانہ، اور حکیمانہ نظام کو چھوڑ کر نئے نئے ازموں کو اختیار کرکے امن عالم کو برباد کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post