مغوی سے بطور تاوان بٹ کوائن طلب کرنے کی تحقیقات

0

امت رپورٹ
لاہور پولیس کے ذرائع کے مطابق بٹ کوائن کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے درمیان اس وقت ایک غیر اعلانیہ لڑائی جاری ہے۔ یہ لڑائی انٹرنیٹ پر اس تصوراتی کرنسی کے کاروبار اور لین دین کی وجہ سے ہوئی ہے، جس کو ابھی تک دنیا کے اکثر ممالک میں کرنسی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کاروبار کے کرتا دھرتا بظاہر کسی اور جرم میں ملوث نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا کسی کرائم گروہ سے کوئی تعلق ہے۔ تفتیشی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی دہشت گرد عناصر ملوث نہ ہوں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا ہے، جس نے مغوی شخص کی بازیابی کیلئے تاوان کے عوض کرپٹو کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ کا مطالبہ کیا تھا، جو ایک تصوراتی کرنسی ہے اور ایک محدود پیمانے پر اس کا کاروبار ہو رہا ہے۔ مگر اس کو ابھی تک دنیا کے بیشتر ممالک میں تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق اغوا کار گروہ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا آپریٹر مظہر عباس، کانسٹیبل محسن عباس اور دیگر پانچ افراد شامل ہیں۔ جبکہ لاہور کے رہائشی محمد طاہر اور فیصل آباد کے رہائشی شیخ عبدالرؤف منی ایکسچینج اور بٹ کوائن ڈیلر ہیں۔ مقدمے کا ایک اور ملزم فیصل یوسف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹیچر پروفیسر شاہد نصیر کا طالبعلم ہے، جن کو پولیس نے بازیاب کروایا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جس میں اغوا کاروں نے ڈیجیٹل کرنسی کو تاوان کے طور پر طلب کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس واقعہ کی تفتیش نہ صرف یہ کہ پولیس نے انتہائی باریکی سے کی ہے۔ بلکہ دیگر ادارے بھی اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ابھی تک جو تفتیش ہوئی ہے، اس سے ثابت ہوا ہے کہ ملزمان بٹ کوائن میں ڈیل کرتے تھے اور اغوا کاروں نے مغوی کی بازیابی کیلئے بطور تاوان ڈیجیٹل کرنسی طلب کی تھی۔ مگر تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ معاملہ اتنا سادا نہیں، بلکہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ جس میں سب سے زیادہ اس بات پر تفتیش ہو رہی ہے کہ اس کاروبار میں ملوث گروہ آپس میں لین دین کے تنازعہ پر لڑ پڑے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس کاروبار میں ملوث لوگوں کی اکثریت کسی منظم جرائم میں ملوث نہیں پائی گئی ہے۔ بلکہ ان کیلئے وائٹ کالر کرمنل کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے، جو لڑائی جھگڑوں سے دور بھاگتے ہیں۔ مگر جب ان کے درمیان انتہائی صورتحال پیدا ہوئی تو ایک گروپ نے دوسرے گروہ کے شخص کو اغوا کرلیا اور اس سے کچھ ڈیجیٹل رقم کے عوض 25 لاکھ روپے وصول بھی کئے۔ جس سے اصل میں انہوں نے ڈیجیٹل کرنسی ہی خریدنا تھی۔ جبکہ باقی رقم کیلئے معاملات طے ہورہے تھے کہ یہ ملزمان پولیس کی گرفت میں آگئے۔ ذرائع کے مطابق مغوی جو پیشہ کے لحاظ سے استاد ہے، بھی اس کاروبار سے منسلک ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بٹ کوائن کے حوالے سے باہمی چپقلش یا اختلاف اس گروہ کے درمیان ہی میں نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو تصوراتی کرنسی پر جوا کھیلتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت گرفتار ملزمان کے زیر استعمال تمام الیکٹرونک ڈیوائسس کی جدید ترین انداز میں تحقیقات ہو رہی ہیں، جس کی مدد سے کچھ ایسے شواہد دستیاب ہوئے ہیں کہ جن کی بدولت اس کاروبار سے منسلک مزید لوگوں تک پہنچا سکے اور ان کی سرگرمیوں سے متعلق مکمل معلومات حاصل کی جاسکیں۔ تفتیش کاروں کے مطابق اس بات کی بھی تحقیقات کی جارہی ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی یا بٹ کوائن کے کاروبار کو کہیں دہشت گرد گروہوں نے رقم کے تبادلے کیلئے ہائی جیک تو نہیں کرلیا اور اس کے سہارے سے رقوم منتقل تو نہیں کی جارہی ہیں۔ ذرائع کے بقول اس حوالے سے بھی جدید طرز پر تفتیش جاری ہیں۔ اگر اس میں دہشت گردی کا کوئی عنصر شامل ہوا تو وہ بہت جلد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں آجائے گا۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے ایک رپورٹ وزارت داخلہ کو ارسال کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ملک میں اپنی طرز کا پہلا کیس ہے، جس میں ڈیجیٹل کرنسی کو تاوان کے طور پر طلب کرنے کے شواہد ملے ہیں۔ خدشہ ہے کہ بٹ کوائن کو دہشت گردی سمیت دیگر منفی سرگرمیوں میں استعمال کئے جانے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More