اسلام آباد/ نئی دہلی (امت نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک) کرتارپور راہدری سے بھارتی پنجاب میں سکھوں کی خالصتان تحریک دوبارہ شروع ہونے کا ڈراونا خواب ایک بار پھر بھارتی حکومت کو دکھائی دینے لگا ہے اور وہ کرتارپور راہدری پر مذاکرات سے آخری وقت میں فرار ہوگئی ہے۔ یہ مذاکرات 2اپریل کو واہگہ میں ہونے تھے۔ پاکستان نے بھارتی صحافیوں کو ویزے بھی دے دیئے تھے لیکن جمعہ کو نئی دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو بھارت نے طلب کیا اور پاکستان کی گردوارہ کمیٹی میں شامل بعض سکھ رہنمائوں پر اعتراض کر دیئے۔ بھارت نے انہیں خالصتان تحریک کے رہنما قرار دیا ہے۔ تاہم جس کمیٹی پر انکار کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں تمام گردواروں سے متعلق کمیٹی ہے اور اس کا کرتارپور سے تعلق صرف اتنا ہے کہ دیگر گردواروں کی طرح وہ کرتاپور گردوارے کا انتظام بھی دیکھتی ہے۔ بھارت کےتازہ اقدام پر سکھ برداری میں اشتعال پھیل رہا ہے۔ دوسری جانب بھارتی ہندو کھل کر کہنےلگے ہیں کہ حکومت سکھوں کے لے کرتاپور راہدری نہ کھولے۔ کرتاپور پر دو اپریل کو ہونے والے مذاکرات منسوخ کرنے کے پیچھے خالصتان تحریک کا خوف موجود ہونے کی بھارتی میڈیا نے بھی تصدیق کی ہے۔ بھارت کے نیوز 18 ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ حکومت قومی سلامتی مفادات اور سکھوں کے جذبات کے درمیان پھنس گئی ہے۔ بھارت کے ہندوتوا صحافی کئی مہینوں سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کرتارپور راہدری کو خالصتان تحریک کو بھڑکانے کے لیے استعمال کرے گا۔ واضح رہے کہ سکھوں کے پیشوا باباگرونانگ کی جائے پیدائش کے علاقے میں بنا گردوار کرتاپور پاکستانی حدود میں بھارتی سرحد سے محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس تک سکھ یاتریوں کو رسائی دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ کرتاپور گردوارے اور سکھوں کے خلاف ہندوتوا صحافیوں کا پروپیگنڈہ دو روز قبل اس وقت تیز ہوا جب پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پاکستانی گردواروں کی دیکھ بھال کے لیے کمیٹی کا اعلان کیا۔ اس 10رکنی کمیٹی میں گوپال سنگھ چاؤلہ، منندر سنگھ، بسنت سنگھ اور کلجیت سنگھ کی شمولیت پر بھارت نے اعتراض کیا ہے۔ بھارتی حکومت انہیں خالصتان تحریک کے رہنما قرار دیتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان میں سے گوپال سنگھ چاؤلہ کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید سے بھی مل چکے ہیں۔ بھارت نے جمعہ کو دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک بیان کےمطابق پاکستانی ڈپٹی ہائی کمشنر سے کمیٹی کے ارکان پر وضاحت مانگی گئی۔ اس کے علاوہ یاتریوں کے معاملے پر بھی جواب مانگا گیا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں ہر روز 500 یاتریوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی جائے جب کہ خاص تہواروں پر یہ تعداد بڑھا کر 10ہزار یومیہ کردی جائے۔ تاہم پاکستان کا مؤقف ہے کہ یاتریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 700 ہوسکتی ہے۔ بھارت نے ان معاملات پر وضاحت تک مزید مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ تکنیکی ماہرین کے درمیان اپریل کے وسط میں بات چیت کی تجویز رکھی ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے ٹوئٹر کے ذریعے بھارت کی جانب سے میٹنگ مؤخر کیے جانے کی تصدیق کی۔ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے مذاکرات مؤخر کیے جانے کے فیصلے پر افسوس ہوا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ 14 مارچ کو کرتاپور راہداری کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں دونوں طرف سے آئندہ میٹنگ پر بلانے پر اتفاق ہوا تھا، ان مذاکرات میں تصفیہ طلب مسائل اور ان کے حل پر گفتگو کی گئی تھی۔ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ پاکستان کا مؤقف جانے بغیر آخری لمحات اور بالخصوص 19 مارچ کو ایک مثبت تکنیکی مذاکرات کے بعد میٹنگ مؤخر کرنا ناقابلِ فہم ہے۔ ترجمان نے کہاکہ بھارت نے جس پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی پر اعتراض کیا ہے وہ کرتاپور کیلئے خاص نہیں بلکہ پاکستان کے اندر گردواروں کے انتظام سے متعلق کمیٹی ہے۔ بھارت کی جانب سے مذاکرات مؤخر کیے جانے سے قبل ڈاکٹر فیصل نے بھارتی میڈیا کو میٹنگ کی کوریج کی اجازت بھی دی تھی۔ حالانکہ اس سے پہلے بھارت نے پاکستانی صحافیوں کو ویزے نہیں دیئے تھے۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی 19 مارچ کو تکینکی ماہرین کی ملاقات بہت مثبت تھی، اور اب عین آخری وقت پر بھارت کا مذاکرات کوملتوی کرنا سمجھ سے بالاترہے۔پاکستان نے انڈیا کی جانب سے کرتارپور راہداری کے سلسلے میں دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان دو اپریل کو طے ملاقات ملتوی کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں کہا کہ آخری لمحے پر ملاقات کو پاکستان کی رائے لیے بغیر موخر کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ تاہم بھارتی حکومت کے آئندہ عزائم ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آرہے ہیں۔ نیوز18 نے کہاکہ گوپال سنگھ چاؤلہ کے حافظ سعید سے تعلقات ہیں اور وہ خالصتان تحریک کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ اگرچہ لیکن ٹی وی چینل نے یہ اعتراف بھی کیا کہ گزشتہ برس کرتاپور راہدری کے افتتاح کی تقریب میں گوپال چاؤلہ بھی وہیں موجود تھے جہاں 2بھارتی وزرا اور سابق کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو شریک تھے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ کوریڈور سے بھارت کی سلامتی متاثر ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اس کوریڈور سے صرف بھارتی یاتری ہی پاکستان آئیں گے اور واپس چلے جائیں گے۔ پاکستان سے کوئی شخص بھارت نہیں جائے گا۔ سیکورٹی کا نیا واویلا مچانے والا بھارت ہی اب تک کوریڈور سے ویزا فری رسائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور بھارتی میڈیا کے بقول پاکستان سے یہ مطالبہ تسلیم کرا چکا ہے کہ راہدری کے ذریعے صرف سکھوں کو ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے بھارتی شہریوں کو بھی کرتاپور جانے کی اجازت ہوگی۔ اس صورت حال میں سیکورٹی کی زیادہ تشویش پاکستان کو ہونی چاہئے لیکن بھارت میں ہندوتوا صحافیوں نے بھارتی سلامتی کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی ہندو مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ راہداری بننے ہی نہ دی جائے ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان سکھوں کو بھارت کے خلاف کر دے گا۔ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کے حامی وزیراعلیٰ پنجاب امریندر سکھ نے بھی راہدری کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ 2020 تک خالصتان بنانے کا آئی ایس آئی منصوبہ ہے۔ امریندر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کا ایجنڈہ سیاسی ہے اور وہ سکھوں کے جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت کے سکھ مخالف اقدامات سے عام سکھوں میں اشتعال پھیل رہا ہے۔ ایک سکھ سوشل میڈیا صارف ادیتی سنگھ برار نے لکھا کہ بھارتی اقدام قطعی ناقابل قبول ہے اور اس کا ردعمل آئے گا۔ ادیتی کا کہناتھا کہ سکھ سرحد توڑ دیں گے۔ کوئی بھی سکھوں کو کرتارپور جانے سے نہیں روک سکتا۔ جمعہ کو ہی سوشل میڈیا پر ایک سکھ خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جو بھارتی پرچم کو آگ لگا رہی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ مذکورہ ویڈیو جمعہ کو بھارتی اعلان سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
٭٭٭٭٭
Next Post