سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں: رسول اقدسؐ کے پاس شام کے وقت مہمان آیا۔ آپؐ نے اپنی ازواجات مہطرات کی طرف کسی کو بھیجا۔ ہر ایک نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میرے پاس کچھ نہیں ہے سوائے پانی کے۔
آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’آج رات کون اس کی مہمان نوازی کرے گا؟‘‘ ایک انصاریؓ نے کہا: میں۔ وہ مہمان کو گھر لے گئے اور بیوی سے کہا: ’’رسول اقدسؐ کے مہمان کی عزت میں کوئی کمی نہ رہنے پائے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے: بیوی سے پوچھا: ’’گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟‘‘ کہنے لگی: ’’سوائے بچوں کی تھوڑی سی خوراک کے اور کچھ نہیں‘‘۔
کہنے لگے: ’’ان کو بہلا پھسلا کر سلا دو۔ جب مہمان گھر میں آئے تو چراغ کو درست کرنے کے بہانے بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم کھا رہے ہیں۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی کیا کہ مہمان کے ساتھ بیٹھ گئے… خود نہیں کھایا، مہمان سیر ہوگیا۔ صبح رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ’’آج کی رات آپ کا مہمان کے ساتھ کیا گیا عمدہ سلوک خدا تعالیٰ کو بہت پسند آیا۔‘‘ (متفق علیہ)
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
آپؐ کو ایک خاتون نے چادر ہدیہ کی۔ آپؐ کی ضرورت تھی۔ آپ نے اسے پہن لیا۔ ایک آدمی کہنے لگا: یہ مجھے مرحمت فرما دیں۔ یہ کتنی خوبصورت ہے۔ آپؐ مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپ گھر تشریف لے گئے۔ اس کو اتار کر لپیٹا۔ پھر اس آدمی کو بھجوا دی۔ لوگ کہنے لگے: ’’تم نے اچھا نہیں کیا۔ نبی کریمؐ کو اس کی ضرورت تھی اور آپؐ نے اسے پہنا، مگر تم نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ سائل کو انکار نہیں کرتے، پھر بھی ان سے چادر مانگ لی؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! میں نے یہ چادر پہننے کے لیے طلب نہیں کی۔ میں نے تو اس لیے لی ہے کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو اس میں مجھے کفن دیا جا سکے‘‘۔ راوی کہتے ہیں: ’’جب وہ فوت ہوئے تو اسی چادر میں انہیں کفن دیا گیا‘‘۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ راوی ہیں: آپؐ نے فرمایا: ’’یہ اشعری لوگ بہت اچھے ہیں، کسی جنگ میں جب ان کا زاد ختم ہو جاتا ہے یا خاتمے کے قریب ہوتا ہے یا مدینہ میں ان کے پاس خوراک ختم ہو جاتی ہے تو جو ان کے پاس موجود ہوتا ہے، اسے یہ سب ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں، پھر اسے آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں‘‘۔
معرکہ یرموک میں حضرت حذیفہ عدویؓ اپنے چچا زاد بھائی کو تلاش کرنے گئے۔ کہتے ہیں: میں نے پانی کا ایک مشکیزہ اور پانی پینے کا ایک برتن ساتھ لیا اور میدان جنگ میں پہنچ گیا۔ میرے چچا زاد زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ میں انہیں پانی پلانے لگا تو ایک آواز آئی: آہ، اس نے اشارہ کیا، مجھے چھوڑ دو پانی انہیں پلاؤ۔ میں وہاں پہنچا تو یہ مشہور اسلامی جرنیل حضرت عمرو بن العاصؓ کے بھائی حضرت ہشام بن العاصؓ تھے۔
میں ان کے پاس پہنچا تو قریب ہی سے ایک اور شخص کی آواز آئی: آہ، انہوں نے اشارہ کیا: پانی انہیں پہلے پلاؤ۔ جب میں اس شخص کے پاس پہنچا تو اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔ میں واپس ہشامؓ کے پاس آیا تو وہ بھی جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ جب میں لوٹ کر اپنے چچا زاد کے پاس آیا تو وہ بھی اپنے رب کے پاس جا چکے تھے۔ کیا چشم فلک نے ایثار کے ایسے مناظر کسی اور قوم میں بھی دیکھے ہیں؟!!(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post