زندہ قوم

0

جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ زلزلوں کا سامنا کرتا ہے۔ جاپان قوم اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ ان کی سرزمین کے مقدر میں زلزلوں کا آنا لکھ دیا گیا ہے، اس کے باوجود جاپانی اپنے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں، جو قوم بڑی بڑی قدرتی آفات، جنگوں اور مسائل کا سامنا کرنے کے بعد بھی اپنی تہذیت وتمدن کے دائرے میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتی ہے، وہ زندہ قوموں میں شمار کی جاتی ہے۔
جاپان برسوں سے قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے۔ 1923ء میں ٹوکیو میں جو زلزلہ آیا تھا، اس نے جاپانی قوم کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی، لیکن جاپانی قوم نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہد کیا کہ ہم اپنے قدموں پر خود کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے نئے جذبے کے ساتھ دن رات محنت کر کے ٹوکیو جو ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا، اسے پھر تعمیر کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ جاپانی قوم نے قدم قدم پر یہ ثابت کیا کہ یہ خود دار قوم ہے۔ بڑے بڑے زلزلے اور جنگیں ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ امریکا نے 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیا پر ایٹم بم برسا کر ان شہروں کا 60 فیصد حصہ بارود اور ملبے کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ عالمی اداروں اور نیویارک ٹائمز کے مطابق ان بموں کے گرنے کے نتیجے میں اس دن تقریباً 40,000 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے، جبکہ 1945ء کے اختتام پر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 80,000 کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اس قوم کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ان دو شہروں کو پھر سے جدید طرز پر تعمیر کیا، آج ان دونوں شہروں میں زندگی رواں دواں ہے اور کہیں سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ان شہروں پر ایٹم بم برسائے گئے تھے۔
ان بحرانوں کے ساتھ جاپانی قوم نے اپنی معیشت کو ہمیشہ مستحکم رکھنے کی کوشش کی۔ جاپان کی بنی ہوئی الیکٹرونکس کی اشیا اور گاڑیوں نے پوری دنیا کی منڈی میں اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ آج دنیا کے کسی ملک میں دیکھ لیں، ہر تیسری گاڑی جاپانی نظر آئے گی، جبکہ الیکٹرونکس کا سامان جاپان کے معیار پر اب تک کوئی اور ملک نہیں بنا سکا۔ زلزلے اور جنگوں نے جاپان کی معیشت کو دھچکا ضرور پہنچایا، لیکن جاپان کو ترقی یافتہ ملکوں کی لسٹ سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔1950ء سے 1980ء تک جاپان کا عالمی منڈی پر راج رہا، جبکہ 1990ء میں دیگر ترقی یافتہ ممالک کی معیشت ہچکولے کھا رہی تھی، لیکن جاپان کی معیشت مستحکم تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جاپانی قوم محنت کش، ذہین اور بلند حوصلے کی مالک ہے۔
جاپان کے حکمرانوں نے اپنے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زلزلہ پروف عمارتیں بنانے کو ترجیح دی۔ آج جاپان میں ہر دوسری عمارت زلزلہ پروف ہے۔ 11 مارچ 2011ء میں جاپان کو قدرت نے ایک بار پھر بڑی آزمائش میں مبتلا کردیا۔ 9.0 میگنیٹوٹ کے ساتھ آنے والی تقریباً 75 فٹ اونچی لہروں نے جاپان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، سب سے زیادہ جاپان کے شمال مشرقی حصوں کو متاثر کرتے ہوئے دو شہروں فوکوشیما اور آفنٹو کو ملبے کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا۔ جاتے جاتے یہ 75 فٹ اونچی لہریں اپنے ساتھ سیکڑوں کاریں، گھر، پانی کے چھوٹے جہاز اور کشتیوں کے علاوہ تباہ شدہ ملبے کے بڑے ڈھیر کو بھی لے گئیں۔ اس خطرناک سونامی نے تقریباً 19000 افراد کو نگل لیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک سال کے اندر جاپانی قوم نے متاثرہ علاقوں کو پھر سے جدید طرز پر تعمیر کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ انتہائی بلند حوصلوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ واضح رہے 11 مارچ 2011ء کے زلزلے کے بعد امریکا، اسرائیل اور دیگر یورپین مماک نے مدد کی پیشکش کی تھی، جو جاپان کی حکومت نے شکریہ کے ساتھ رد کر دی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان کے جس شمال مشرقی علاقے میں سونامی نے قہر ڈھایا، وہاں پر ہزار برس میں دوبارہ یہ قدرتی آفات آسکتی ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر روجر فوڈن نے کہا 11 مارچ 2011ء کے سونامی اور 1869ء کے سینڈائی میں جو زبردست لہریں اٹھی تھیں، دونوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ جاپان کے اس علاقے میں زلزلے کوئی نئی بات نہیں ہیں، جس سے سمندری طوفان برپا ہو رہے ہیں۔
19ویں اور 20 ویں صدی میں ایسے زلزلوں سے زبردست لہریں اٹھیں، جس سے ساحلی علاقے بری طرح متاثر ہوئے، لیکن سابقہ جاپانی ماہرین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 1869ء میں جوگان میں تباہی آئی تھی، اس میں سونامی کا پانی زمین کی سطح پر 4 کلو میٹر اندر تک پہنچ گیا تھا اور اس سے بڑے پیمانے پر سیلاب کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ 11 مارچ 2011ء کی سونامی لہریں 75 فٹ تک اونچی تھیں اور ابھی یہ واضح نہیں ہوا کہ وہ زمین پر کتنی دور تک پہنچیں۔
امریکا کی جارجیاٹیک یونیورسٹی میں سونامی سے متعلق ماہر پروفیسر برمین فوٹز کا کہنا ہے کہ دنیا میں تیاری کے حوالے سے جاپان سے زیادہ کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ لیکن عام طور سے 7 یا 7.5 سکیل پوائنٹ تک کی بھی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ لیکن 4 کے اسکیل سے زیادہ پر کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر برمین فوٹز کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلے اور سونامی کے اسکیل کے درمیان بھی کوئی راستہ رشتہ نہیں ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شگاف کس طرح کا پڑتا ہے۔ اگر شگاف سمندر کے فرش پر پڑتا ہے تو اس سے بڑے پیمانے پر بکھراؤ پیدا ہوتا ہے، برمین فوٹز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر واقعے کا اپنا ایک معاملہ ہے اور اس کو اسی مناسبت سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین اپنے تجربے کے بنیادی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن قدرتی آفات کو وقت سے پہلے پرکھنا ناممکن ہے۔ جاپان جو صدیوں سے زلزلوں کا مقابلہ کر رہا ہے، 11 مارچ 2011ء کے سونامی نے ساحل کے قریب شہروں کو منٹوں میں ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا، دنیا بھر میں اس تباہی کے مناظر کو دیکھا گیا۔ سونامی کے بعد جاپان تابکاری کے اثرات کو زائل کرنے میں مصروف ہے۔ ایٹمی ریکٹر کے قریب کے علاقے خالی کرائے گئے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ امریکن سائنس دانوں نے امریکی حکومت کو آگاہ کر دیا تھا کہ جاپان میں سونامی کے نتیجے میں جو تباہ شدہ ملبہ سمندر کی نذر ہوگیا تھا، جو کہ تقریباً 10 سے 25 ٹن ہے، یہ ملبہ ماہرین کے اندازے کے مطابق امریکن ساحلوں پر آکر رکے گا۔ اس ملبے میں کشتیاں، چھوٹے چھوٹے پانی کے جہاز، گاڑیاں اور تباہ شدہ گھروں کے علاوہ دیگر سامان موجود ہے۔ جاپانی قوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ معاف کرنے اور درگزر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس وقت جاپان کی آبادی تقریباً 12.7 ملین ہے، اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ قدرتی آفات اور ان پر مسلط کی جانے والی جنگیں ان کے حوصلے پست نہیں کرتی ہیں۔اگر جاپانیوں کی جگہ کسی اور قوم کو ایسی تباہ کن قدرتی آفات اور ہولناک جنگوں کا سامنا کرنا پڑتا اور اس کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے جاتے تو شاید اس قوم کا نام و نشان ہی باقی نہ بچتا۔ مگر اس عظیم قوم کا عزم ہے کہ حالات کیسے ہی ہوں، ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں کیا جائے گا اور وہ زندہ قوموں کی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے۔ یہی عزم و ہمت اور ناقابل شکست حوصلہ جاپان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بلند مقام پر باقی رکھا ہوا ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More