حضرت طاووسؒ فرماتے ہیں کہ :
دورانِ طواف ہی وہ مرد مومن میری آنکھوں سے غائب ہوگیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب اس سے ملاقات نہیں ہوسکے گی، لیکن پھر میں نے میدان عرفات میں شام کے وقت اسے دیکھا کہ لوگوں کے شانہ بشانہ مزدلفہ کی طرف جا رہا ہے۔ میں اس کے قریب ہوا، وہ خدا تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا:
ترجمہ: ’’خدایا! آپ نے میرا حج، میرا سفر، میری تھکاوٹ قبول نہ کی تو میرا کیا بنے گا؟ پروردگار! اپنی مہربانی سے کم از کم اس مبارک سفر کے اجرو ثواب سے مجھے محروم نہ کرنا۔‘‘
پھر وہ رات کی تاریکی میں میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور میں کافی تلاش کے باوجود اسے نہ دیکھ سکا۔
اس کی ملاقات سے مایوس ہوگیا، تو میں حق تعالیٰ سے دعا کرنے لگا:
’’الٰہی! میری اور اس شخص کی دعا کو قبول فرما۔ الٰہی! میری اور اس کی امیدوں کو پورا فرما۔ الٰہی! مجھے اور اسے قیامت کے دن ثابت قدم رکھنا، جس دن اکثر لوگوں کے قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اے کرم کرنے والے خدا! میری اور اس کی ملاقات حوض کوثر پر کرانا۔‘‘
انسان کو کسی کے ساتھ برائی نہیں کرنی چاہئے، ہماری زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، کیوں کہ جو شخص کسی کے ساتھ برائی سے پیش آتا ہے تو اس کا بدلہ دنیا میں بھی اور آخرت میں اس کو ملتا ہے۔
اس لئے اگر ہم سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو اس سے فوراً معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے ہم پکا عزم کریں کہ کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور ساتھ ہی ان تمام کاموں سے بچیں جن سے کسی کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً کوئی پھل وغیرہ کھا کر اس کے چھلکے راستے میں نہ پھینکیں، کسی کا مذاق نہ اڑائیں، گاڑی وغیرہ صحیح جگہ پر کھڑی کریں وغیرہ وغیرہ۔ زبان کو استعمال کرنے سے پہلے ذرا سوچ لینا چاہئے کہ جو بات میں کہنے والا ہوں، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اور دوسرے پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اور یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جو بات میں دوسرے سے کہنے والا ہوں، اگر دوسرا شخص مجھ سے یہ بات کہتا تو مجھ پر اس کا کیا اثر ہوتا؟ مجھے اچھا لگتا یا برا لگتا۔
حضور نبی اکرمؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی اور یہ اصول بتایا:
ترجمہ: ’’دوسرے کے لیے وہی بات پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔‘‘
اگر اس پر ہم عمل کرنا شروع کردیں تو سارے جھگڑے ختم ہوجائیں اور آپس میں پیارو محبت پیدا ہوجائے۔
حضرت طاووسؒ اور خلیفہ سلیمان
خلیفۃ المسلمین سلیمان بن عبد الملک کعبہ کی ایک جانب پڑائو ڈالے ہوئے اسے شوق بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے دربان سے کہا: کسی ماہر عالم کو بلا کر لائو تاکہ وہ ہمیں ان مبارک دنوں کی مناسبت سے حج کے مسائل بتائے۔
دربان حجاج کرام سے امیر المئومنین کی خواہش کے مطابق کسی ماہر عالم کے متعلق پوچھنے لگا۔ اسے بتایا گیا کہ طاووس بن کیسانؒ اس دور کے فقہاء و علماء کے سردار ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے میدان میں ان کا وعظ سب سے زیادہ دلوں پر اثر کرنے والا ہے، آپ بے فکر ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔
دربان نے حضرت طاووس بن کیسان ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر ادب سے درخواست کی: امیر المئومنین نے آپ کو یاد فرمایا ہے!
آپؒ بغیر کسی تاخیر کے دربان کے ہمراہ امیر المؤمنین کے پاس جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ آپ کی سوچ یہ تھی کہ ہر دین کی دعوت دینے والے پر لازم ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لیے مناسب موقع کو غنیمت جانے، اسے کسی صورت ہاتھ سے نہ جانے دے۔
انہیں اس بات پر پختہ یقین تھا کہ وہ بات سب سے افضل ہے جو کسی بادشاہ کو راہ راست پر لانے اور اس کو ظلم و ستم سے روکنے کے لیے کی جائے۔ اس طرح وہ بات بھی بہت افضل ہے جو کسی بادشاہ کا حق تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لیے کی جائے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post