گزشتہ صدی کے نامور تاریخ دان آرنلڈ جے ٹائن بی نے اپنی کتاب A Study Of History میں اکیس تہذیبوں کا تذکرہ کیا ہے، جو اس کائنات میں انسانی زندگی کی ابتداء کے بعد وجود میں آئیں۔ ان میں سے قدیم ترین تہذیب ’’منوعن (Minoan) تہذیب‘‘ بتائی جاتی ہے، جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے آٹھ ہزار سال قبل یونان اور ترکی کے قریبی سمندر میں پھیلے ہوئے Aegean جزائر میں جنم لیا۔ مصری تہذیب دوسری قدیم ترین تہذیب ہے، جو چار ہزار سال قبل مسیح میں دریائے نیل کے علاقے میں ظہور پذیر ہوئی۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے مغربی ساحل پر اینڈین تہذیب، چین میں دریائے زرد کی وادی میں Sinic تہذیب، دریائے فرات کی وادی میں سومیرک (Sumeric) تہذیب، دریائے سندھ اور گنگا کی وادیوں میں Indic تہذیب سمیت مختلف تہذیبوں نے مختلف اوقات میں، مختلف علاقوں میں جنم لیا۔
ٹائن بی کی تحقیق کے مطابق ان اکیس تہذیبوں میں سے سولہ تہذیبیں مرورِ زمانہ کے ہاتھوں فنا ہو چکی ہیں، جبکہ پانچ تہذیبیں ابھی تک زندہ و موجود ہیں۔ ان پانچ تہذیبوں میں یورپ و امریکہ کی مغربی عیسائی تہذیب، جنوب مشرقی یورپ اور روس کے علاقوں میں موجود آرتھوڈوکس عیسائی تہذیب، شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ، بحر الکاہل سے لے کر دیوار چین تک اور اس سے آگے انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی اسلامی تہذیب، برصغیر میں موجود ہندو تہذیب اور منگولیا، چین، کوریا، جاپان اور ان سے ملحقہ دیگر مشرقی علاقوں میں موجود مشرق بعید تہذیب شامل ہیں۔ ٹائن بی تہذیبوں کے پھلنے پھولنے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان اکیس تہذیبوں میں سے صرف چھ تہذیبیں ایسی تھیں، جو انسان کی ابتدائی زندگی کے بعد وجود میں آئیں، جبکہ پندرہ تہذیبوں نے کسی نہ کسی سابقہ تہذیب سے جنم لیا، لیکن اسلامی تہذیب واحد ایسی تہذیب ہے، جسے یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے کسی سابقہ تہذیب سے جنم لیا، نہ وہ کسی گزشتہ تہذیب سے منسلک تھی۔
تہذیبوں کی نشوونما اور عروج و زوال کے بارے میں ٹائن بی نے لکھا ہے کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو قوم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کر رہی ہو، زرعی و صنعتی شعبوں میں ہم عصر اقوام کو پیچھے چھوڑ دے یا پھر میدانِ جنگ میں کامیابیاں حاصل کرکے جغرافیائی لحاظ سے وسعت اختیار کر رہی ہو، اس قوم کی تہذیب بھی پھلتی پھولتی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ اس نظریئے سے اختلاف کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ تہذیبوں کی ترقی کا یہ کوئی پیمانہ نہیں ہے، کیونکہ تہذیبوں کی ترقی مادی نہیں، بلکہ روحانی طور پر ہوتی ہے۔ انہوں نے کسی بھی تہذیب کی نشوونما کے لیے بہترین طریقہ Mimesis کو قرار دیا ہے۔ Mimesis کا مطلب ہے کہ کسی بھی تہذیب سے وابستہ تمام تر افراد کا مجموعی طور پر اپنے کسی رہبر و رہنما کی پیروی کرنا اور اپنے طرزِ زندگی کو اس کے طرزِ زندگی کے مطابق ڈھالنا۔ یہ وہ یقینی راستہ ہے، جس پر عمل کرنے سے تہذیبیں ترقی کرتی ہیں۔
ٹائن بی نے تہذیبوں کے زوال کی بابت رائج مختلف نظریات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ بنیادی طور پر تہذیبوں کا Break Down تین وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اولاً تہذیب کی اقلیت میں تخلیقی قوت ختم ہو جاتی ہے اور وہ محض ایک جابرانہ قوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ثانیاً اس کے نتیجے میں اُس تہذیب سے وابستہ لوگوں کی اکثریت تہذیب کے Mimesis کو چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ ثالثاً متذکرہ بالا وجوہ کی بنا پر اس تہذیب میں معاشرتی وحدت ختم ہو جاتی ہے، جس کے باعث اس کے ٹوٹنے کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ دراصل کسی تہذیب سے وابستہ لوگوں کا اپنی تہذیب کے Mimesis کو ترک کرنا ہی اس تہذیب کے زوال کا اصل سبب ہوتا ہے۔ جس تہذیب کے لوگوں کی اکثریت اپنی تہذیب کے Mimesis کو ترک کرکے کسی دوسری تہذیب کے Mimesis کو اپنا لے، تو پھر اس تہذیب کے ٹوٹنے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے اور وہ کچھ عرصے بعد دوسری تہذیب میں ضم ہو جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تہذیبوں کا تصادم دراصل تہذیبوں کے Mimesis کے مابین جنگ ہوتی ہے۔ جس تہذیب کے Mimesis پھیلتے چلے جائیں، وہ تہذیب بھی ترقی کرتی ہے اور جو تہذیب اپنے Mimesis ترک کر دے، وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بالآخر ختم ہو جاتی ہے۔
ٹائن بی کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں پانچ زندہ تہذیبیں موجود ہیں، جن میں سے آرتھوڈوکس عیسائی تہذیب، ہندو تہذیب اور مشرق بعید تہذیب ٹوٹ کر مغربی تہذیب میں ضم ہوتی جا رہی ہیں۔ صرف اسلامی تہذیب میدان میں موجود ہے، جس کا مقابلہ مغربی تہذیب کے ساتھ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹائن بی نے اس بارے میں تاسف کا اظہار کیا کہ ان کی تہذیب یعنی مغربی تہذیب کے وابستگان خدائے واحد کی وحدانیت کے تصور کو ترک کر چکے ہیں۔ اہل مغرب کو جن مسائل کا سامنا ہے، وہ بنیادی طور پر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن مغربی تہذیب کے وابستگان نے مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اپنی زندگی سے باہر نکالا۔ پھر سترہویں صدی عیسوی میں پہلے نیشنلزم کا جھنجھنا بجانا شروع کیا۔ پھر انسان دوستی کی آواز لگائی۔ کبھی قومی عصبیت کی بنیاد پر وطنیت کا نعرہ لگایا اور اب سیکولرزم کی پرستش میں مصروف ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے وابستگان کے لیے مذہب کے بغیر زیادہ دیر تک زندہ رہنا ناقابل برداشت ہو جائے گا اور یہ لادینیت جلد کسی مذہب کے آگے دم توڑ جائے گی۔
تہذیبوں کے عروج و زوال کے بارے میں ٹائن بی کی اس دلچسپ بحث سے پتا چلتا ہے کہ کسی بھی تہذیب کی نشوونما اور ترقی کا اصل راز اُس تہذیب کے Mimesis یعنی کسی بڑے رہبر اور رہنما کے طرزِ زندگی کی پیروی میں پنہاں ہے۔ جو تہذیب اپنے Mimesis کی حفاظت کرے گی، اس سے محبت کرے گی اور خود کو دوسری تہذیبوں کے Mimesis سے بچا کر رکھے گی، وہ تہذیب نا صرف قائم و دائم رہے گی، بلکہ دوسری تہذیبوں کو توڑ کر اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہوگی۔ اگر ہم غور کریں تو اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ ہماری اسلامی تہذیب کے Mimesis دراصل ہمارے آقا ومولاؐ کی مبارک سنت ہے، جسے باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ مغربی تہذیب کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ اسی سنت سے ہے، کیونکہ حضور اقدسؐ کی پیاری سنت براہِ راست دل پر دستک دیتی ہے۔ سنتِ رسولؐ کفر کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے پریشان دلوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ ایک بار اسلامی تہذیب کی آغوش میں آکر تو دیکھیں، سب تاریکیاں چھٹ جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب کے علمبردار ہر اُس دَر کو بند کرنے کے لیے زور لگا رہے ہیں، جہاں سے سنت کی روشنی پھوٹتی ہے۔ جن لوگوں نے چند روز پہلے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ختم بخاری شریف کے موقع پر فارغ التحصیل علمائے کرام کی سیاہ داڑھی اور سفید پگڑی والی تصاویر دیکھی ہیں، وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ سنت ِ رسولؐ کا حسن کیسا دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ دینی مدارس اسلامی تہذیب کے فروغ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، جہاں ہمہ وقت قال اللہ و قال الرسولؐ کی صدائیں گونجتی ہیں، اس لیے وہ مغربی تہذیب کے علمبرداروں اور ان کے دیسی نمائندوں کی آنکھوں میں خار کی مانند کھٹکتے ہیں۔ لہٰذا اُن کی طرف سے دن رات دینی مدارس کو بند کرنے اور آکسفورڈ اور کیمبرج کے نظام و نصابِ تعلیم کو مسلمان ممالک میں عام کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں، جس کے بارے میں شاعر مشرقؒ نے فرمایا:
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف مغربی تہذیب اور اس کے دیسی ٹائوٹ دینی مدارس سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ ہر روز ان مدارس کو بند کرنے کے لیے کوئی نیا منصوبہ سوچتے ہیں۔ کبھی ان کے نصاب پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ کبھی انہیں قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے سے روکا جاتا ہے۔ کبھی ان پر شدت پسندی کے فروغ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ کبھی ان کے نصابِ تعلیم کو فرسودہ کہا جاتا ہے اور کبھی امریکہ سے درآمد شدہ بتایا جاتا ہے تاکہ کسی نہ کسی بہانے اس چراغ کو بجھایا جا سکے۔ مسلمانوں کی معاشرتی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور انہیں مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کے لیے کیے گئے اور کیے جانے والے دیگر اقدامات اس کے علاوہ ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اول روز سے ہی اسلامی تہذیب جہاد، درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے پھلی پھولی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اصحابِ رسولؐ نے جب افریقہ کو فتح کیا تو الجزائر، تیونس اور مراکش جیسے افریقی ممالک بھی اسلامی تہذیب کے رنگ میں ایسے رنگے گئے کہ وہ افریقی نہیں، بلکہ عرب خیال کیے جانے لگے۔ اسی طرح دینی مدارس و مکاتب کی خدمات بھی آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ چنانچہ پہلے تو جہاد والوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں دنیا بھر میں بدنام کیا گیا۔ اب دینی مدارس کے خلاف مہم جاری ہے، جبکہ آخری معرکہ دعوت و تبلیغ والوں کے ساتھ ہو گا، جس کے بعد ہی دنیا میں امن قائم ہو سکے گا۔ مولانا محمد احمد بہاولپوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک اصحابِ دعوت اور عالمِ کفر کے مابین تصادم نہیں ہوگا، دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ دینی مدارس کو مغربی تہذیب اور اس کے دیسی ٹائوٹوں کی مذموم سازشوں سے بچانے کا واحد علاج وہی ہے، جو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے مالٹا سے واپسی پر تجویز فرمایا تھا کہ اربابِ مدارس تمام مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہو جائیں اور جابجا مکاتبِ قرآن کھولے جائیں۔ علاوہ ازیں حضور اقدسؐ کی مبارک سنتوں کو اپنانے اور فروغ دینے کی محنت کی جائے۔ یہ ایسی محنت ہے، جو ٹائن بی کی تحقیق کے مطابق اسلامی تہذیب کے فروغ و عروج اور مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Next Post