اس نواجوان کا کہنا تھا کہ ریسٹورنٹ جانے کی پیشکش سن کر والدہ صاحبہ فون پر تھوڑی دیر خاموش رہیں، غالباً وہ کچھ سوچ رہی تھیں اور پھر بے حد خوشی کے ساتھ انہوں نے میری پیشکش قبول فرمالی۔ کہنے لگیں: اگر تمہاری خوشی ہے تو پھر میں تیار ہوں۔ جہاں چاہوگے چلی جاؤں گی۔ میں بھی سرشار ہوگیا اور شام کا انتظار کرنے لگا۔
آج دفتر سے آدھی چھٹی تھی، میں وقت سے قدرے پہلے ہی والدہ کے گھر پہنچ گیا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا، کچھ اندیشوں، کچھ اشتیاق کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ میرے انتظار میں تھیں۔ نہایت خوبصورت لباس میں آج وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ غالباً یہ کپڑے میرے والد محترم نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ہی خریدے تھے۔ والدہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ کہنے لگیں: آج میں نے اپنے سارے جاننے والوں کو بتایا ہے کہ آج میں اپنے بیٹے کے ساتھ ڈنر کرنے جا رہی ہوں۔ سبھی نے بے پناہ مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ڈنر سے واپسی پر ان کو خوب مزے لے لیکر بتاؤں گی کہ ہم ڈنر کے لیے کہاں گئے اور کیا کھایا تھا۔
ہم ماں بیٹا درمیانے درجے کے ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ یہ میرا دیکھا بھالا ریسٹورنٹ تھا۔ وہاں رش نہ تھا، بلکہ مکمل خاموشی تھی، والدہ نے میرا بازو تھام رکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ خاتون اول ہوں۔ ان کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا اور بہت خوش نظر آرہی تھیں۔
ہم دونوں کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے تو بیرے نے مینو کارڈ لاکر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ والدہ کی نظر کمزور ہو چکی تھی، اس لیے اب وہ چھوٹے حروف پڑھنے کے قابل نہ تھیں۔ میں نے ان کو مینو پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب میں ’’مینو‘‘ پڑھ رہا تھا تو وہ مسکرا کر کہنے لگیں: بیٹا! جب تم چھوٹے تھے، میں تمہارے لیے ’’مینو‘‘ پڑھا کرتی تھی اور تمہیں پوچھا کرتی تھی: تمہیں کھانے میں کیا پسند ہے؟ اور جو تم کھانے میں پسند کرتے، وہی منگوایا جاتا تھا۔
والدہ صاحبہ کی موجودگی میںکھانا بہت مزیدار ہوگیا تھا۔ ہم نے اپنی پسند کی ڈشیں منگوائیں اور خوب سیر ہوکر کھانا کھایا۔ کھانے کے دوران میں ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ وہ میرے بچپن کی باتیں سناتی رہیں، والد صاحب کے حوالے سے، برادری، خاندان کی باتیں، ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ہمیں کھانے کے دوران باتوں کی وجہ سے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ آدھی رات بیت چکی ہے۔ آج ہم دونوں بڑے ہی خوش تھے، ہم نے بڑا خوبصورت وقت گزارا۔ واپسی پر جب انہیں گھر پر اتارا تو انہوں نے میرا بازو تھام لیا۔ ایک بات مانوگے، وہ گویا ہوئیں۔ کیوں نہیں اماں جان، آپ حکم کریں… میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہم ایک مرتبہ پھر آج کی طرح ڈنر کریں گے، مگر شرط یہ ہوگی اس روز کھانے کا بل تم نہیں، میں ادا کروں گی۔ میں نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور سر اثبات میں ہلادیا اور اپنے گھر روانہ ہو گیا۔
چند دن گزرے تھے کہ والدہ صاحبہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ آناً فاناً ہمیں روتا ہوا چھوڑ کر راہی آخرت ہوگئیں۔ یہ سب کچھ اچانک ہوگیا۔ ہم اس کے لیے قطعاً تیار نہ تھے۔ لوگ تعزیت کے لیے آئے اور چلے گئے، ہم ان کی باتیں یاد کرکے روتے رہے۔ وقت کا پہیہ بڑی تیزی سے حرکت کرتا رہا۔ والدہ صاحبہ کی وفات کو چند دن گزرے تھے کہ جس ریسٹورنٹ میں ہم نے کھانا کھایا تھا، وہاں سے مجھے ڈاک کے ذریعے ایک لفافہ موصول ہوا۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اسے چاک کیا تو دیکھا والدہ صاحبہ نے اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا تھا کہ!
’’بیٹے میں نے دو افراد کے کھانے کا بل پیشگی ادا کر دیا ہے، میری خواہش ہے کہ تم اور تمہاری بیوی اس ریسٹورنٹ میں میرے ذاتی خرچ پر ڈنر کرو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ اس کھانے میں شامل نہیں ہو پاؤں گی۔ میرے بیٹے اس روز تمہارے ساتھ کھانا کھانے کا بہت مزا آیا اور اس دن مجھے پھر سے اندازہ ہوا کہ میں تم سے بے حد محبت کرتی ہوں۔ تم دونوں میاں بیوی ڈنر کرو، مجھے اس سے خوشی ہوگی، میری تمنا ہے کہ تمہاری زندگی مزیدار اور خوشگوا ر گزرے…‘‘
میری آنکھوں سے بے اختیار چند قطرے گر پڑے، ماں تم کتنی محبت کرنے والی تھیں۔
قارئین کرام! کبھی ایسا ہوا کہ آپ اپنی والدہ کو اکیلے ڈنر پر لے گئے ہوں؟ (ختم شد)
٭٭٭٭٭
Next Post