ڈاکٹر عبدالغنی فاروق
برمودا مثلث کے اسرار کے بارے میں جناب الطاف شیخ نے ’’امت‘‘ میں کتنی ہی قسطوں میں (دسمبر سے 2017ء سے مارچ 2018ء تک) بھرپور معلومات فراہم کی ہیں اور دیگر قارئین کے ساتھ میں بھی ان کی اس کاوش کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسئلہ حل ہونے میں نہیں آرہا اور شیخ صاحب کی تحریروں سے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ برمودا کے سمندر میں انتہائی پراسرار واقعات کا سبب آخر کیا ہے۔ وہاں بحری اور ہوائی جہاز غائب کیوں ہو جاتے ہیں، سمندر سے آگ کے شعلے کیوں اٹھتے ہیں اور اس سمندر میں اڑن طشتریاں کیوں محو پرواز رہتی ہیں؟
راقم الحروف کو بھی اس موضوع سے گہری دلچسپی رہی ہے، اس کے بارے میں پڑھتا بھی رہا ہوں اور غور و فکر بھی کرتا رہا ہوں۔ اس ضمن میں مجھے کراچی کے ماہنامہ ’’سائنس ڈائجسٹ‘‘ سے خاص رہنمائی حاصل ہوئی۔ اس جریدے میں نومبر 1998ء سے فروری 2000ء تک مسلسل تیرہ قسطوں میں برمودا کے بارے میں بڑی ہی قابل قدر معلومات شائع ہوئیں۔ امریکہ ہی کے ایک باہمت سائنس دان ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی نے ایک بڑے ہی نادر موضوع پر حیرت انگیز تحقیق کی ہے۔ موصوف فلسفے میں پی ایچ ڈی ہیں۔ میڈیکل سائنس میں ایم ڈی ہیں اور ورجینیا یونیورسٹی میں ریڈر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ انہوں نے ’’لائف آفٹر لائف‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ میں نے اس سے بھی استفادہ کیا اور حاصل مطالعہ کو ایک طویل مقالے کی صورت میں مرتب کر دیا، جو آج سے دس بارہ سال پہلے نوائے وقت کے سنڈے میگزین کی دو قسطوں میں شائع ہوا اور پھر اسے کتابچے کی صورت میں مرتب کر دیا، جس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، میں کچھ اضافوں کے ساتھ اس مقالے کا ماحصل پیش کر رہا ہوں۔
امریکہ کے جنوب مشرقی ساحلوں کے قریب بحر اوقیانوس میں پانچ لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض علاقے میں برمودا کا علاقہ صدیوں سے پراسرار واقعات اور حادثات کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس علاقے سے گزرنے والے بحری جہاز، کشتیاں، بلکہ ہوائی جہاز بھی ٹھیک اس علاقے میں جا کر یکایک غائب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ چنانچہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زیادہ بحری اور ہوائی جہاز اور آٹھ ہزار سے زیادہ افراد کوئی سراغ یا نشان چھوڑے بغیر یہاں غائب ہو چکے ہیں۔
مثلث برمودا عہد حاضر کا شاید سب سے بڑا راز ہے۔ امریکہ اور یورپ بھر کے سائنسدان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس راز کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب ہٹا نہیں سکے۔ اس علاقے میں بے حد حیرت انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کی کوئی بھی سائنسی یا عقلی توجیہہ نہیں کی جا سکی۔ یہاں پہنچتے ہی ہوائی جہازوں کے کمپاس کی سوئیاں تیزی سے گھومنے لگتی ہیں اور جائرو سکوپ (Gyro Scope جہاز کے توازن اور سمت کو درست رکھنے والا آلہ) ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ ریڈیائی پیغامات میں خلل آجاتا ہے اور جہازوں کے پائلٹ ایک بالکل ہی انوکھے ماحول میں گھر جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جو آخری پیغامات کنٹرول روم میں سنائی دیتے ہیں، وہ شدید ترین خوف اور گھبراہٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’’یہاں مکمل اندھیرا ہے… گھپ اندھیرا، جہاز بے قابو ہو رہا ہے، ہم کہاں جا رہے ہیں، یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘ اور اس کے بعد گہری خاموشی چھا جاتی ہے، ہمیشہ کی خاموشی… اور عجیب بات یہ ہے کہ ان حادثات کی زد میں آنے والا کبھی ایک فرد بھی زندہ نہیں بچا… اور گم ہونے والے ہوائی یا بحری جہازوں کی تلاش میں جو ٹیمیں ادھر گئیں، وہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آئیں، نہ ان کا کوئی پتہ نشان مل سکا۔
البتہ چند جہاز جو اس فضا کی لپیٹ میں آ تو گئے، لیکن دس پندرہ منٹ کے بعد انہیں رہائی مل گئی، تو حیرت انگیز طور پر ان کی گھڑیاں پیچھے رہ گئیں۔ اس علاقے کی پراسراریت کا یہ عالم ہے کہ دسمبر 1945ء میں پانچ امریکن بمبار ہوائی جہازوں کا پورا ایک فلیٹ تربیتی پرواز کے دوران یوں غائب ہو گیا کہ جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہ تھا اور جب یہ حادثہ پیش آیا تو موسم بڑا ہی سازگار تھا اور سمندری طوفان یا جھکڑ کا کوئی وجود نہ تھا۔ اسی طرح برٹش سائوتھ امریکن ایئر لائنز کے تین جہاز اپنے تمام مسافروں سمیت غائب ہو گئے اور ان کا کوئی نشان تک نہ ملا۔
غائب ہونے والے جہازوں کے کپتانوں نے آخری پیغامات میں اپنے سامنے چمکدار بادلوں اور سفید پانیوں کا ذکر تکرار کے ساتھ کیا ہے۔ سب سے حیرت انگیز اور پراسرار چیز اس علاقے میں اڑن طشتریوں کا وجود ہے، جن کو اب تک ہزاروں افراد کھلی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ ڈیسک کی شکل کی یہ خلائی گاڑیاں برمودا کی فضائوں میں عام اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی رفتار غیر معمولی حد تک تیز ہوتی ہے، ان میں سے کوئی آواز برآمد نہیں ہوتی اور ان کے رنگ کبھی سرخ اور کبھی نارنجی شیڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں… یہ یکایک نمودار ہوتیں اور کوئی شور پیدا کئے بغیر یکایک سمندر میں غائب ہو جاتی ہیں۔ بے شمار لوگوں نے دیکھا ہے کہ برمودا کے پانیوں میں سے ایک ’’جہاز‘‘ نکلتا ہے اور آواز پیدا کئے بغیر آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یکایک ایک جہاز فضا میں نمودار ہوتا ہے اور سمندر میں اس طرح غوطہ لگا جاتا ہے کہ نہ پانی اڑتا ہے، نہ لہریں پیدا ہوتی ہیں اور نہ کوئی شور سنائی دیتا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1947ء سے 1970ء تک بارہ ہزار چھ سو اٹھارہ افراد نے شہادت دی کہ انہوں نے برمودا کی فضائوں میں پراسرار اڑن طشتریاں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔
اسی نوعیت کے ان گنت، محیر العقول واقعات اس علاقے میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ایک بار رات کے پونے بارہ بجے ایک امریکی بحری جہاز برمودا کے علاقے میں محو سفر تھا۔ کوئی چلایا کہ جہاز کے دائیں جانب والے نگران نے کوئی چیز دیکھی ہے اور وہ بے ہوش ہو گیا ہے۔ کوئی اور چیخا کہ باہر کوئی پراسرار چیز ہے۔ اس جہاز کا ایک افسر رابرٹ ریلے لکھتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی معیت میں باہر نکلا۔ دیکھا کہ چاند جیسی کوئی چیز تھی، جو تقریباً پندرہ میل کے فاصلے پر افق سے بلند ہو رہی تھی، مگر اس کا حجم چاند سے تقریباً ایک ہزار گنا بڑا تھا۔ وہ چیز خود بے حد روشن تھی، مگر اس سے روشنی خارج نہیں ہو رہی تھی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ چیز راڈار پر نظر نہیں آ رہی تھی۔
اسی طرح گوبھی کے پھول سے مشابہ پانی کے ایک بڑے پہاڑ کے بلند ہونے کا منظر 11 اپریل 1963ء کو بوئنگ 707 کے ہوا بازوں نے دیکھا۔ یہ منظر دن کے ڈیڑھ بجے اکتیس ہزار فٹ کی بلندی سے پائلٹ، کیپٹن اور فلائٹ انجینئروں نے بڑے واضح انداز میں دیکھا۔ پانی کے اس پہاڑ کی چوڑائی تقریباً ایک میل اور بلندی تقریباً تین ہزار فٹ تھی۔
صاف کھلے وسیع آسمان پر عجیب و غریب ساخت کے اکیلے دو بادلوں کا مشاہدہ بھی روزمرہ کا معمول ہے۔ یہ بادل ڈرائونے انداز میں چمکتے اور عجیب عجیب شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایئر فورس کا ایک طیارہ اسی طرح کے بادلوں کے قریب سے گزرا تو ان میں سے انتہائی تیز سرچ لائٹ کی شعاع نکلی اور تقریباً دو سیکنڈ تک جہاز کے گرد و پیش کا جائزہ لیتی رہی، پھر طیارے پر آ کر ٹھہر گئی اور اس وقت تک طیارے کو اپنے حصار میں لئے رہی، جب تک طیارہ بادلوں کے قریب سے نہیں گزر گیا۔ یہ سب کچھ چھ سیکنڈ میں ہو گیا۔ پائلٹ نے صورت حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے طیارے کا رخ جلدی سے موڑ لیا۔
برمودا کے علاقے میں ایسی مثالیں بھی بہت سی ہیں کہ بحری جہاز تو سلامت رہا، لیکن اس کے سینکڑوں مسافر پراسرار طور پر غائب ہو گئے اور ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ مسافروں کے کمروں میں ایک ایک چیز صحیح حالت میں اپنی اپنی جگہ موجود پائی گئی۔
اور جیسا کہ عرض کر چکا ہوں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بعض ہوائی جہاز اس فضا میں غیر معمولی حالات سے دوچار ہوئے، ان کے سارے آلات جام ہو گئے، وہ شدید ترین تاریکیوں میں گھر گئے، لیکن پھر اس بحرانی کیفیت سے نکل گئے اور حیرت انگیز طور پر جہاز کی اور عملے کی گھڑیاں دس یا پندرہ منٹ پیچھے ہوگئیں۔
مثلث برمودا کے اسرار کا ایک اور حیرت انگیز پہلو … لانگ وڈ کالج ورجینیا کے فزکس کے پروفیسر دائن مشچن اپنے معاونین کے ساتھ تین برسوں سے موسمی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر کے تجزیے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ گزشتہ دو برسوں میں موسمی سیارے آٹھ سو میل کی بلندی پر جب برمودا مثلث کے عین اوپر پہنچتے ہیں تو ان کے سارے آلات ایک دم ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ٹیپ شدہ تصاویر میں سگنلز کی ترسیل بند ہو جاتی ہے۔
برمودا مثلث کے بارے میں یہ معلومات میں نے ان مضامین سے حاصل کی ہیں جو کراچی کے ماہنامہ ’’سائنس ڈائجسٹ‘‘ میں نومبر 1988ء سے فروری 2000ء تک مسلسل تیرہ قسطوں میں شائع ہوتے رہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭