حضور اقدسؐ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی، سیدہ فاطمہؓ کی وفات 3 رمضان المبارک 11ھ منگل کی رات میں ہوئی۔ اس زمانے میں عورتوں کے جنازے کو بھی اسی طرح لے جاتے تھے جیسا کہ آج کل مردوں کے جنازے لے جاتے ہیں۔ کوئی خاص پردہ نہ ہوتا تھا۔ حضرت سیدۃ النسائؓ کو اس کی بڑی فکر تھی کہ میرا جنازہ (اعلیٰ درجے کے) پردہ کے بغیر جائے گا اور لوگ دیکھیں گے۔ آپؓ نے بہت شرم محسوس کی۔ افسوس ہے ان پر جو دعویٰ محبت حضرت فاطمہؓ کا کریں اور علانیہ بے پردہ پھریں اور آپؓ کی پیروی سے دور رہیں۔ حیائے شرعی بہت بڑی نعمت ہے، جس قدر ایمان کامل ہوگا، اسی قدر حیا و غیرت کامل ہوگی۔
وفات سے کئی روز پہلے آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی زوجہ حضرت اسمائؓ سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ عورت کے جنازے پر درخت کی نرم شاخیں باندھ کر ایک نیم دائرہ صورت بناتے ہیں، جسے سے نعش نظر نہیں آتی اور جیسا آج کل رواج ہے، جس کو گہوارہ کہتے ہیں، سیدہ اسمائؓ نے بنا کر دکھلایا۔ اسے دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بہت خوش ہو کر مسکرانے لگیں (آپ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد صرف ایک دفعہ اسی بات پر مسکرائیں) اور حضرت اسمائؓ سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم ہی مجھ کو غسل و کفن دینا اور کسی کو نہ آنے دینا اور جیسا تم نے دکھلایا ہے، میرے جنازے پر ضرور اسی طرح کا پردہ بنا دینا۔ (بے مثال واقعات)
ملک الموت کو دو مرتبہ رحم آیا:
ایک مرتبہ حق تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا کہ تم نے بے شمار روحیں نکالی ہیں۔ دن رات کا یہی مشغلہ ہے۔ یہ بتاؤ کہ کبھی کسی کی روح نکالتے ہوئے رحم بھی آیا؟ فرشتے نے عرض کیا کہ صرف دو آدمیوں پر رحم آیا۔ رب تعالیٰ نے فرمایا کون ہیں جن پر تم کو بھی رحم آگیا؟ فرشتے نے کہا کہ ایک مرتبہ ایک سمندری جہاز جس میں عورتیں، بچے سب سوار تھے، سمندر میں سفر کررہا تھا، طوفان آگیا اور جہاز ڈوب گیا۔ کچھ لوگ غرق ہوگئے اور کچھ لوگ تختوں پر تیرتے ہوئے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ انہی جہاز والوں میں ایک حاملہ عورت تھی، کشتی کا ایک بڑا تختہ اس کے ہاتھ آگیا تھا۔ اندھیرے اور طوفانی رات اور سمندر کے بیچوں بیچ وہ عورت تختے سے چمٹی رہی۔ اسی حالت میں اس نے بچے کو جنم دیا اور بچے کو اپنے سینے سے لپٹا لیا۔ بچے کے کھانے پینے کا سامان تھا نہ حفاظت کا کوئی بندوبست۔ اس حالت میں اے بزرگ و برتر ذات! آپ کا حکم یہ تھا کہ اس عورت کی روح قبض کرلی جائے۔ خدایا! میں نے روح تو قبض کرلی، لیکن آج تک رحم آتا ہے اور یہی سوچتا ہوں نہ جانے اس بچے کا کیا ہوا ہوگا؟
حق تعالیٰ شانہ نے پوچھا: تجھے دوسری مرتبہ کس پر رحم آیا؟
ملک الموت نے عرض کیا کہ شداد نامی آپ کا ایک نافرمان بندہ تھا، جسے آپ نے بادشاہت اور مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی تھی۔ اس نے کہا کہ میں دنیا میں جنت بناؤں گا، پھر اس نے جنت بنانا شروع کی اور لاکھوں دینار خرچ کرتا رہا اور اس نے طے کرلیا کہ جنت پوری تیار ہو جانے کے بعد ہی اس میں داخل ہوگا۔ برسوں انتظار کے بعد جب جنت میں داخلے کا وقت آیا، ابھی اس کا ایک قدم اس کی جنت کے اندر دوسرا باہر تھا کہ آپ کا حکم ہوا کہ اس کی روح قبض کرلو۔ میں نے روح کو قبض کرلیا، مگر آج تک رحم آتا ہے کہ اتنے برسوں کی محنت اور مال خرچ کرکے بھی اسے اپنی جنت دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔
حق تعالیٰ نے فرمایا: اے ملک الموت! تجھے ایک ہی آدمی پر دو مرتبہ رحم آیا ہے۔ تجھے معلوم نہیں کہ یہ شداد وہی بچہ تھا، جس کی ماں کی روح تو نے اندھیری اور طوفانی رات میں قبض کی تھی۔ ہم نے اپنی رحمت واسعہ اور شان ربوبیت سے اس بچے کو بچا لیا اور پال پوس کر پروان چڑھایا۔ اسے ذہانت وفطانت دی۔ صحت، طاقت اور عزت عطا کی۔ یہاں تک کہ بادشاہ بنا دیا اور جب بادشاہ بنا تو ہمارے مقابلے پر اتر آیا اور اس نے جنت کی تعمیر شروع کر دی۔ (حوالہ بالا)
Prev Post
Next Post